اجتماعات کی اہمیت و برکات

ریحان احمد شیخ مربی سلسلہ دفتر صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان

اللہ تعالیٰ جل شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یَا ایُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوااللہ وَکَونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ(سورۃ توبہ آیت119)

یعنی اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے ایسے مواقع جماعت احمدیہ مسلمہ کو میسر فرمائے ہیں۔جس سے ہم سب احمدی اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے سامان کر رہے ہیں۔چنانچہ ان افضال میں سے جہاں جلسہ سالانہ ہے جس کا قیام سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے الٰہی بشارت ملنے کے بعد سن1891ء میں قادیان دارالامان کی اس چھوٹی سی بستی میں فرمایا تھااس دن سے لیکر آج تک ہر سال قادیان اور دنیا کے 200سے زائد ممالک میں احمدی احباب اپنی روحانی بقاء کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احمدی نوجوانوں کے لئے 1938ء میں ایک تنظیم ’’ تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ ‘‘ کا قیام فرمایا ۔1938ءسے لیکر 2019ء مجلس خدام الاحمدیہ قادیان ماسوائے 1947تا1977ءباقاعدہ سالانہ اجتماع منعقد کر تی چلی آرہی ہے۔بانیٔ تنظیم سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ اجتماع کی مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ

’’ اس کے بعد میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ باتیں تو تمہاری کھیلوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کا فائدہ تمہارے جسموں کو پہنچ سکتا ہے لیکن تمہارا کام صرف ان کھیلوں کی طرف متوجہ ہونا اور اپنے جسموں کو درست کرنا ہی نہیں بلکہ تمہارا حقیقی کا م اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرنا ہے۔میں اپنے خطابات میں بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اس وقت بھی۔۔۔کہ خدام الاحمدیہ کو مذہبی،اخلاقی اور علمی رنگ میں کام کرنے کے لئے منظم کیاگیا ہے ۔پس انہیں اپنے اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔‘‘

(مشعل راہ جلد اوّل صفحہ333)

مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صادقین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا تو اس کے پیغمبر اور اس پیغمبرکے خلیفہ نے جلسہ اور اجتماع کے ذریعہ صحبت صالحین اختیار کرنے کا مواقع فراہم کر دیا ۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ اشعری ؓ سےمروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دو شخصوں کی مانند ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہوں۔کستوری اٹھانے والا تجھے مفت میں خوشبودےگایا تو اس سے خرید لےگا نہیں تو کم از کم اس کی خوشبو اور مہک سونگھ ہی لے گا لیکن بھٹی جھونکنے والا تیڑے کپڑوں کو جلا دےگا یا اس کا بدبو دار دھواں تجھے تنگ کرےگا۔‘‘    (المسلم کتاب البر و صلہ)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’ صحبت میں بڑا شرف ہے۔اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچاہی دیتی ہے۔کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔اسی طرح صادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے۔‘‘

(مفلوظات جلد چہارم صفحہ209)

اسی طرح آپ علیہ السلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ

’’ جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے۔اس لئےاحادیث اور قرآن شریف میں صحبت بد سے پرہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے۔اورلکھا ہے کہ جہا ں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس ے فی الفور اٹھ جاؤ۔ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہوگا۔صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہےاس لئے کس قدر ضرورت اس امر کی کہ انسان کونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ کے پاک ارشاد پر عمل کرے ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی جس میں تیرا ذکر کر رہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہےکہ صادقوں کی صحبت کس قدر فائدے ہیں۔سخت بد نصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے۔غرض نفس مطمئنہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں امارہ والے میں نفس امارہ کی تاثیر ہوتی ہیں۔اور لوامہ والے میں لوامہ کی تاثیریں ہوتی ہیں اور جو شخص نفس مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے۔

(بحوالہ الحکم 17؍جنوری 1904ء صفحہ1)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیںکہ

 ’’جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے دعائیں کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں آج بھی شاملین جلسہ کے لئے برکت کا باعث ہیں کیونکہ آپؑ نے اپنے ماننے والوں کے لئے جو نیکیوں پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ کی سچی محبت دل میں رکھتے ہیں، قیامت تک کے لئے دعائیں کی ہیں۔ پھر یہاں آ کر ایک دوسرے کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتے ہیں۔ ضمنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی پہچان ہو جاتی ہے، حالات کا پتہ لگ جاتا ہے۔ اب تو دنیا یوں اکٹھی ہو گئی ہے، فاصلے اتنے کم ہو گئے ہیں کہ تمام دنیا کے لوگ کم از کم نمائندگی کی صورت میں یہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے حالات کا پتہ چلتا ہے، ان کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ پھر آپس میں اس طرح گھلنے ملنے سے، اکٹھے ہونے سے محبت و اخوت بھی قائم ہوتی ہے۔ آپس میں تعلق اور پیار بھی بڑھتا ہے اور بعض دفعہ حقیقی رشتہ داریاں بھی قائم ہو جاتی ہیں کیونکہ بہت سے تعلق پیدا ہوتے ہیں۔ رشتہ ناطے کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اور اس سے جماعت میں جو مضبوطی پیدا ہونی چاہئے وہ پیدا ہوتی ہے اور اجنبیت بھی دور ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے لئے بغض و کینے کم ہوتے ہیں اور جب ایسی باتوں کا، آپس میں لوگوں کی رنجشوں کا پتہ لگتا ہے تو ان کے لئے پھر دعائیں کرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ اور پھر جو دوران سال وفات پا گئے ہیں ان کی مغفرت کے لئے بھی دعا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی باتوں کے سنانے کا شغل رہے گا۔ لیکن جلسوں پر آنے والے صرف میلے کی صورت میں اکٹھے ہو جانے کا تصور لے کر نہ یہاں آئیں۔ جب یہاں آئیں تو غور سے ساری کارروائی کو سننا چاہئے۔ اگر اس بارے میں سستی کرتے ہیں تو پھر تو یہاں آ کر بیٹھنا اور تقریریں سننا کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے باہر سے آنے والے بھی جو خرچ کرکے آئے ہیں اور یہاں کے رہنے والے بھی جلسے کی تقریروں کے دوران پورا پورا خیال رکھیں اور بڑے غور اور دلجمعی سے جلسے کی کارروائی کو سنیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے۔ پورے غور اور فکر کے ساتھ سنوکیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے۔ اس میں سستی، غفلت اور عدم توجہ بہت برے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کرکے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اس کو نہیں سنتے، ان کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجے کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں اور دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو۔ کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتاوہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس مؤرخہ 30؍ جولائی 2004ء)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’ اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کاخوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں ‘‘۔

 پھر فرمایا کہ:’’ یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ نخواہ التزام اس کا لازم ہے۔ بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ غیر اس کے ہیچ ‘‘۔ یعنی اس کی اصل نیت جو ہے وہ روحانی عزت کو بڑھانے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی ہے رسول کی محبت حاصل کرنے کی ہے۔ ورنہ تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور فرمایا کہ’’ جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد کہ اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں ‘‘۔ صرف اس لئے اکٹھا نہیں کرتا کہ نظر آئے کہ لوگوں کا کتنا مجمع اکٹھا ہو گیا ہے۔ ’’بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے‘‘۔ وہ مقصد جس کے لئے یہ وجہ پیدا کی گئی ہے وہ اللہ کی مخلوق کی اصلاح ہے۔ ’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہو سکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چار پائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سویا رہوں ‘‘۔ یعنی میری حالت پر افسوس ہے کہ میں امن سے سویا رہوں۔ ’’اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں۔ اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں۔ بلکہ مجھے چاہئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ اگر میرا بھائی ساد ہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ میں اس سے کوئی ٹھٹھا کروں یا چیں برجبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں۔ کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو، جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے‘‘جب تک وہ اپنے آپ کو ہر ایک سے ذلیل نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہو جائیں۔ خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے‘‘۔

(شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد نمبر6صفحہ396-394)

سیدنا حضرت امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیںکہ

’’ ان اجتماعوں کے منعقد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ افراد جماعت کے کانوں میں نیکی کی باتیں مسلسل پہنچتی رہیں۔ابھی دو مہینے پہلے ہی آپ کا جلسہ سالانہ ختم ہوا ہے اس میں بھی بہت سے علمی اور تربیتی خطاب ہوئے جو بہت سے سننے والوں کے لئے فائدے کا باعث بنے ہوں گے۔بہت سے خدام کو بھی ان تقاریر کو سننے اور پروگراموںمیں شامل ہونے کے بعد اپنی اصلاح کی توفیق ملی ہوگی،اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہوگی۔لیکن جب جماعت کی مختلف ذیلی تنظیمیں اپنے اجتماعات منعقد کرتی ہیں تو اس میں قدرتی طور پر خاص طور پر توجہ پیدا ہوتی ہے۔لجنہ کو اپنی انفرادیت کا احساس پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔انصار کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔خدام کو اپنی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے،اور وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی جماعت کا ایک اہم حصہ ہیں۔جس نے اپنے علیحدہ پروگرام بناکر(عمر اور مزاج کے لحاظ سے مختلف پروگرام تشکیل دئیے جاتے ہیں)ان پروگراموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کا ایک فعال حصہ بننا ہے۔اطفال الاحمدیہ میں اپنی ایک انفرادیت اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔بچے پروگرام کر رہے ہوتے ہیں اور بالکل نوجوان خدام جو ہیں چھوٹی عمر کے پندرہ اور بیس سال کے قریب ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔کیونکہ جب تک کسی قوم کے ہر طبقے کو اور ہر فرد کو اپنی اہمیت کا احساس نہ ہو جائے کہ ہم جماعت کا ایک حصہ ہیں جس کے ساتھ جماعت کی ساکھ اورترقی وابستہ ہے،اس وقت تک و ہ ترقی کی روح نہیں پیدا ہوتی۔ترقی کی روح تب ہی پیدا ہوتی ہے جب قوم کے ہر طبقے میں یہ احساس ہو جائے کہ ہماری ایک اہمیت ہے۔پھر قومیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جانے والی قومیں ہوتی ہیں۔اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے جنہوں نے جماعت کی تمام ذیلی تنظموں کی بنیاد ڈالی تھی وہ فرمایا کرتے تھے کہ جس جماعت کی ذیلی تنظیمیں بھی فعال ہوں اور جماعتی نظام بھی فعال ہوں اس جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گناہ ہو جاتی ہے۔…اور خدام بھی ذمہ دار ہیں اور پوچھے جائیں گے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا نہیں۔اور خدام میں کیونکہ نوجوان لڑکے اور مرد شامل ہوتے ہیں جن میں زیادہ طاقت بھی ہوتی ہے اور صحت بھی اچھی ہوتی ہے،صلاحیت بھی ہوتی ہے اس لئے جماعتی ترقی کے لئے خدام کی بہترین تربیت اور فعال ہونااور تمام پروگراموں میں حصہ لینا تمام ان باتوں پر عمل کرنا جو خلیفۂ وقت کی طرف سے وقتاً فوقتًا کی جاتی ہیں،زیادہ ضروری ہے۔خدام ہی ہیں جنہوں نے مستقبل کی نسل کے باپ بننا ہے اور خدام ہی ہیں جن میں آئندہ نسل کے باپ موجود ہیں۔جو شادہ شدہ اور بچوں والے ہیں وہ آئندہ نسل کے باپ ہیں اور ایک باپ کی اہمیت کے پیش نظر آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔پس یہ تربیت بھی اگلی نسل کی تبھی ہوگی جب آپ لوگ خود بھی اپنی تربیت کی طرف توجہ دے رہے ہوں گے۔‘‘

(بحوالہ مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوئم صفحہ 493تا495)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

 تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، ٹریننگ کے لئے سال میں تین دن جماعت کے افراد اکٹھے ہوتے ہیں اور سوائے کسی اشد مجبوری کے تمام احمدی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔ یہی آپؑ کا منشا تھا۔ کیونکہ ٹریننگ بھی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر تو تربیت پر زوال آنا شروع ہو جاتا ہے، تربیت کم ہونی شروع ہو جاتی ہے، کمی آنی شروع ہو جاتی ہے دیکھ لیں دنیا میں بھی اپنے ماحول میں نظر ڈالیں تو ہر فیلڈ میں ترقی کے لئے کوئی نہ کوئی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، ٹریننگ لینے کے بعد پھر بھی ریفریشر کورسز بھی ہو رہے ہوتے ہیں، سیمینارز وغیرہ بھی ہو رہے ہوتے ہیں تاکہ جو علم حاصل کیا ہے اسے مضبوط کیا جائے، مزید اضافہ کیا جائے۔ ٹریننگ کے لئے کمپنیاں بھی اپنے ملازمین کو دوسری جگہوں پہ بھجواتی ہیں۔ ملک کی فوجیں سال میں ایک دفعہ عارضی جنگ کے ماحول پیدا کرکے اپنے جوانوں کی ٹریننگ کرتی ہیں۔ یہ اصول ہر جگہ چلتا ہے تو دین کے معاملے میں بھی چلنا چاہئے۔ اس لئے اپنی دینی حالت کو سنوارنے کے لئے جلسوں پر ضرور آئیں اس سے روحانیت میں بھی اضافہ ہو گا اور دوسرے متفرق فوائد بھی حاصل ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس مؤرخہ 30؍ جولائی 2004ء)

قارئین حضرات!! ہم انڈیا کے خدام کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارا سالانہ اجتماع مرکز احمدیت قادیان دارالامان میں منعقد ہوتا ہے جہاں میں ملکی اجتماع میں شمولیت اختیار کرکے بے شمار برکات و افضال سے اپنی جھولیاں بھررہے ہوتے ہیں وہیں دوسری اور قادیان دارالامان میں آکر مقامات مقدسہ کی زیارت کا موقع بھی ملتا اور ان مقامات میں دعائیں کرنے اور مسجد مبارک ،اقصیٰ میں نماز ادا کرنے بیت الدعا میں اسلام احمدیت اور خود اپنی نفس کے لئے دعائیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے نیز سب سے اہم کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی فرمانا ہے مسیح موعود کو جا کر میرا سلام پہنچادینا قادیان دارالامان میں آکر ہمیں حضرت نبی اکرم ﷺ کی سلام امام الزماں کو  پہنچانے کا موقع میسر آجاتا ہے۔نیز جو قادیان میں للی باتیں سننے کے لئے مرکز قادیان میں آنے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں ہیں ان سے بھی حصہ پانے والے ہوتے ہیں اور یہ سب اجتماعات میں شمولیت اختیار کرنے کی وجہ سے ممکن ہے۔پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اجتماعات کی اہمت کو سمجھتے ہوئے ان روحانی اجتماعات میں شامل ہو کر روحانی برکات اور فیوض سے اپنے جھولیاں بھرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)