اداریہ – مارچ ۲۰۲۰

وہ خزائن جو ہزاروں  سال سے مدفون تھے

اب میں  دیتا ہوں  اگر کوئی ملے اُمیدوار

مخبر صادق حضرت محمد مصطفے ﷺ نے مسیح موعود کے لئے یہ نشانی بتائی تھی کہ وہ مال تقسیم کریگالیکن لوگ لینے سے منع کرینگے۔ یہاں اموال لٹانے سے مطلب روحانی مال و متاع ہے۔ کیونکہ دنیوی مال کے لئے انسانی طبیعت کافی حریص واقع ہوئی ہے۔ اور حدیث میں آیاہے کہ اگر ابن آدم کو سونے کی ایک وادی دی جائے تو وہ دوسری کا مطالبہ کریگا۔تو ثابت ہواکہ مال سے مراد روحانی مال ہے نہ کہ جسمانی۔ اور انبیا ء کی تاریخ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے۔ انبیاء جن بیش بہا اموال کو لے کر دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں انکو لینے سے دنیا انکار کرتی ہے۔ خداتعالیٰ کی ذات تمام لذات کا سرچشمہ ہوتی ہے۔اس مبدء فیض کے سامنے تمام چیزیں حقیر ہوتی ہیں ۔لیکن انبیاء کے منکرین نے شروع میں خداکی نعمت کو لینے اور اس کی ذات کو پہچاننے سے انکار کیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت اپنے آقا و متاع حضر ت محمد مصطفے ﷺ کی دوسری بعثت کے طور پر ہوئی ہے جس کا وعدہ سورہ جمعہ میں مذکور ہے۔ آنجناب ﷺ جن روحانی علوم ومعارف کے ساتھ دنیا میں مبعوث ہوئے تھے انکو ہی دنیا میں جاری وساری کرنے حضرت مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے تھے۔ جیساکہ آپؑ اپنے ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں ؛

ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم         یک قطرہ ز بحر کمال محمد است

حضرت مسیح موعودؑ  کے مال لٹانے سے ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ روحانی مال اس قدر لٹائے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیںگے۔

                        حضرت مسیح موعودؑ  نےجو بھی علوم و معارف لٹائے و ہ دراصل حضرت محمد مصطفے ﷺ کی بدولت ہیں ۔ان علوم ومعارف کے مطالعہ سے آنحضرت ﷺ کی اعلیٰ وارفع شان کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ یہ علوم و معارف خداکی خاص تائید و نصرت سےاسلام کی عظمت رفتہ کو پھر سے قائم کرنے کے لئے لکھے گئے۔ روحانی خزائن کی صورت میں آپؑ  کی کتب ایسے دلائل وبراہین پر مشتمل ہیں جو کسی بھی معترض کو ملزم وساکت کرسکتے ہیں ۔ان معرکۃالآراء کتب کو پڑھ کر زندہ خداسے روشناسی ہوجاتی ہے۔ ان کتب کا ہر ہر لفظ اورہر ہر سطر محبت الٰہی اورمحبت رسول سے معمور و مملوء ہے۔ یہ کتب محبت الٰہی اورمحبت رسول کو فروغ دیتی اور دلوں میں اسے جاگزیں کرتی ہیں۔یہ کتب ملّی خدمات کا بے مثال نمونہ ہیں۔بڑے بڑے کبار علماء آپ کی تبحر علمی کے قائل ہوئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر ریویو کرتے ہوئے لکھا ’’ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔ ۔۔۔‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ169)

آپ کی وفات پر مولانا ابوالکلام آزاد نے آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھاکہ؛

’’۔ مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل

ہوکر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے

اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا۔ ‘ (اخبار ملت، لاہور۔ 7جنوری 1911ء)

آج خدام احمدیت کی یہ ذمہ دار ی ہے کہ اس روحانی اسلحہ سے لیس ہو کر نفس امارہ اور دیگرشیطانی طاقتوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہوجائیں۔ جو اس الٰہی جام کو پئے گا اسکی روحانی زندگی یقیناًزندہ جاوید ہوجائے گی۔اس کی خوشخبری دیتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ  فرماتے ہیں؛

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئےگا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔وہ زندگی بخش باتیں جومیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کیلئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی توتمہارے پاس اس جُرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اُسکے سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اسکو کوئی بند نہیں کر سکتا سو تم مقابلہ کیلئے جلدی نہ کرو اور دیدہ و دانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کرو جو خدائے تعالیٰ فرماتاہے لَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا (بنی اسرائیل: 37)بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسانہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ اور پھر اس دکھ کے مقام میں تمہیں یہ کہنا پڑے کہ مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ۔ ‘‘         (ازالہ اوہام،روحانی خزائن، جلد 3، صفحہ104)

ان خزائن روحانیہ سے بھر پور رنگ میں استفادے کی ترغیب دلاتےہوئے سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں؛

’’یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس امام مہدی اورمسیح محمدی کو ماننے کی توفیق ملی اوران روحانی خزائن کا ہمیں وارث ٹھہرایا گیا۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ان بابرکت تحریروں کا مطالعہ کریں تاکہ ہمارے دل اورہمارے سینے اورہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہوجائیں کہ جس کے سامنے دجال کی تمام تاریکیاں کافور ہوجائیں ۔اللہ کرے کہ ہم اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)