اسلامی جنگوں کی و جوہات

سید محی الدین فرید مربی سلسلہ نظارت نشر و اشاعت قادیان

قارئین کرام اسلام میں جنگوں کی وجوہات تاریخ اسلام کا ایسا اہم باب ہے جس کی اصل حقیقیت سے دُنیا کے اکثر احباب ناواقف ہیں اور اسی کم علمی کا فائدہ دشمان اسلام بخوبی اُٹھا کر اسلام کا غلط چہرہ دنیا کے سامنے جہاں پیش کر رہے ہیں وہاں نوجوان نسلوں کو کو اشتعال دلاکر اپنی سیاسی اغراض پوری کرتے نظر آتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل تک اسلام کو بدنام کرنے کے لئے جہاں تقریر اور تحریر کا سہارا لیا جاتا تھا اب اس نئے دورمیں میڈیا، سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری بھی اس پر فلمیں بناکر جہاں اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہیں وہاں باآسانی دنیا میں اس کے ذریعہ اسلام کے لئےنفرت اور بُغض کا بیچ بوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام کے منہ سے آپ کو یہ جملہ اکثر سُنائی دے گاکہ سبھی مسلمان آتنک وادی نہیں ہوتے لیکن سبھی آتنک وادی مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا Slow posion ہے  جوباآسانی ہماری نوجوان نسلوں کے خون میں زہر کے طور پر آہستہ آہستہ داخل کیا جارہا ہے۔ 

بہر حال جب ہم اس نظریہ سے دُنیاکی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے دنیا میں آج تک جتنی بھی اہم جنگیں مذہب یا سیاست کے نام پر ہوئیں ہیں جس میں انسانیت کوشرمسار کیا گیا ہے ان میں سر فہرست پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم ہے۔ اسی طرح ایسی بیسیوں جنگیںمذہب کے نام پر دُنیا کی تاریخ میں ہوئیں ہیں جن کا مقصد اولاً حصولِ دولت/ جلب زر، کمزور اقوام کے وسائل معیشت و تجارت پر قبضہ کرنا اور ثانیاً مذہبی جبر سرفہرست ہیں، جبکہ اسلامی جنگون کی غرض وغایت ومقاصد کو ان چیزوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

 اسلام نے جنگ کی اجازت محض اور محض دنیا کی امن و سلامتی کے لئے دی تھی نہ کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے جیسا کہ آج کل اسلام مخالف پروپیگنڈا کرنے والے شور مچا رہے ہیں۔ اگر ان مخالفین کا، یا ان کے ہمنواؤں کا، یا ان کی حمایت میں کھڑے لوگوں کے اپنے مذہب اور ان کی حکومتوں کے عمل اور دنیا کے امن و امان کی اور سکون کی بربادی کی جو کوششیں یہ کر رہے ہیں ان کا ذکر شروع ہو تو ان کے لئے کوئی راہ فرار نہیں رہتی۔ لیکن ہمارا مقصد دلوں کے کینوں اور بغضوں اور حسدوں کو مزید ہوا دینا نہیں ہے اس لئے قرآنی تعلیم کے بارے میں یہاں ذکر کروں گا جس سے کہ مزید یہ کھلے گا کہ جنگوں یا قتال کی جو اجازت ملی تھی وہ کن بنیادوں پر تھی۔ اسی سے اسلام کی خوبصورت تعلیم مزید واضح ہوتی ہے۔ یہ ایسی تعلیم ہے کہ کسی بھی دوسرے مذہب کی تعلیم کے مقابلے میں بڑی شان اور خوبصورتی سے اپنا مقام ظاہر کرتی ہے، اس کے پاس کوئی دوسری تعلیم پھٹک بھی نہیں سکتی۔ پس اس بارے میں کسی بھی احمدی کو، کسی بھی معترض اسلام کا جواب دینے میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے یا اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن کریم کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے جس کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کا قیام ہے۔

آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جو جنگیں لڑی گئیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی وجوہات بیان فرمائی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اس کی تین وجوہات ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظتِ خود اختیاری، اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے۔

دوسرے بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون جب مسلمانوں پر حملے کئے گئے تو دشمن کو سزا دینے کے لئے، ان سے جنگ کی گئی۔ اسلامی حکومت تھی، سزا کا اختیار تھا۔

نمبر تین بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔ ان لوگوں کی طاقت توڑنے کے لئے جو اس وقت اسلام لانے والوں پر ظلم توڑتے تھے اور ان کو محض اس لئے قتل کیا جاتا تھا، اس لئے تکلیفیں دی جاتی تھیں کہ تم مسلمان ہو گئے ہو۔ (مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 12)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کی جو بھی صورت تھی ان صورتوں میں قرآنی تعلیم کیا ہے۔ اس تعلیم کو دیکھ کر ایک عام عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اُن حالات میں جن میں مسلمانوں کو قتال یا جنگ کی اجازت دی گئی تھی، اگر اجازت نہ دی جاتی تو دنیا کا امن تباہ و برباد ہو جاتا اور سلامتی ختم ہوجاتی۔ یہ اتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، دوسرے مذہب کی کوئی بھی تعلیم، نہ عیسائیت کی، نہ یہودیت کی نہ کسی اور مذہب کی اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ  (الحج : 40) ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے، قتال کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

پھر فرمایا اَ لَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ۔ وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج : 41) کہ وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا، محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور اگراللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع، ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتاہے اور یقینا اللہ اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبے والا ہے۔

یعنی اس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ

نمبر1 یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا کیونکہ ان پر جو ظلم ہوئے تھے بلاوجہ جو قتل کیا جا رہا تھا، اس لئے ان کو اجازت دی جاتی ہے کہ اب تمہاری حکومت قائم ہو گئی ہے تو جب تمہارے پر حملہ ہو یا تمہیں کوئی قتل کرنے کے لئے آئے تولڑو اور بدلہ لو۔ یا حکومت قائم ہے تو سزا کے طور پر قاتل کو سزا دو۔پھر فرمایا

دوسری بات کہ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ یعنی ان کے گھروں سے ان کو بلاوجہ نکالا گیا۔ ان کا قصور کیا ہے؟ قصور یہ کہ وہ کہتے ہیں رَبُّنَااللّٰہُ کہ اللہ ہمارا رب ہے۔

پھراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی جو کہ مسلمانوں کو ایک لمبا عرصہ صبر کرنے اور ظلم سہنے اور ظلم میں پسنے کے بعد دی گئی تو دنیا میں ہر طرف ظلم و فساد نظر آتا۔

پس یہ اصولی حکم آ گیا کہ جب کوئی قوم دیر تک مسلسل دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے تو یہ اجازت دی جاتی ہے کہ جب اس کی حکومت قائم ہو تو اگر اس کے اختیارات ہیں تو وہ جنگ کرے۔ لیکن اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ ہے نہ کہ ظلموں کے بدلے لینے کے لئے حد سے بڑھ جانے کا حکم۔

 اس چیز کو بھی محدود کیا گیا ہے اس پُر حکمت ارشاد نے دوسرے مذاہب کے تحفظ کا بھی انتظام کروا دیا کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو ہر مذہب کی عبادت گاہ ظالموں کے ہاتھوں تباہ و برباد کر دی جاتی جس سے نفرتیں اور بڑھتی ہیں اور سلامتی دنیا سے اٹھ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ہمیشہ سے ظالم کو ظلم سے روکنے کی اجازت ہے۔

 جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اس کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام مذہب کے معاملے میں کسی پر سختی نہیں کرتا، کہتا ہے اس معاملے میں کسی پر سختی نہیں۔ اپنے مذہب میں نہ کسی کو زبردستی شامل کیا، نہ کیا جا سکتا ہے، نہ اس کا حکم ہے۔ مذہب ہر ایک کے دل کا معاملہ ہے، اس لئے ہر ایک اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کا حق رکھتا ہے۔ اس حکم میں مسلمانوں کو اس اہم امر کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ جہاں تمہاری حکومت ہے، تمہیں اس بات سے باز رہنا چاہئے کہ د وسرے مذاہب کے راہب خانے، گرجے اور معابد ظلم سے گراؤ ورنہ پھر یہ ظلم ایک دوسرے پر ہوتا چلا جائے گا تمہاری مسجدیں بھی گرائی جائیں گی اور یوں فساد کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

پس آج یہ ذمہ داری آنحضرت ﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی موعودؑ  کے ماننے والوں پر ہےسب سے اول ہے کہ ہم اسلام کی یہ حقیقی تصویر تمام دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جو حملے دراصل اسلام کو نہ سمجھنے اور بعض مسلمانوں کے غلط رویے اور غلط حرکات کی وجہ سے ہو رہے ہیں، ان کو دنیا کے ذہنوں سے نکالا جائے۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)