امام وقت کی آواز – اپریل ۲۰۲۱

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:۔

پس اللہ تعالیٰ کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کرنے سے آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے وہ نور عطا فرمائے جو اس کا حقیقی نور ہے۔ جو اس کے پیاروں سے محبت کرنے سے ملتا ہے۔ جس کو حاصل کرنے کے طریقے اس زمانے کے امام نے نور محمدی سے حصہ پا کر ہمیں سکھائے۔ ہم دنیا کی لغویات میں پڑنے کی بجائے اپنے خدا سے اس نور کے ہمیشہ طلبگار رہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوں جو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے ہیں کہ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (التحریم:9) کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے ۔یقیناً تو ہر چیز پرجسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اس دعا کے اثرات دکھائے اور مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے یہ نور دائمی بن کر ہمارے ساتھ رہے۔ آمین(خطبہ جمعہ 29؍ جنوری 2010ء)

قرآن کریم نے ایک جگہ اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ وَقَالُوْا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا(القصص: 58) اور وہ کہتے ہیں کہ اگرہم اس ہدایت کی جو تجھ پر اتری ہے اتباع کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں۔ پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض اس لئے نہیں ہے کہ ظلم اور جبر کی تعلیم ہے بلکہ قبول نہ کرنے والے اسلام کی تعلیم پر جو اعتراض کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ہم تیری تعلیم پر عمل کریں جو امن والی تعلیم ہے جو سلامتی والی تعلیم ہے تو ارد گرد کی قومیں ہمیں تباہ کر دیں۔ پس اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تعلیم ہے۔ امن اور سلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے۔ … (خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 2015ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)