سر سے پا تک وہ گلاہوں شجر لگتا ہے (اداریہ – مئی ۲۰۲۱)

حسن و احسان دو ایسی چیزیں ہیں جو عشق ومحبت کا باعث بنتی ہیں ۔ یاہم کسی کے ظاہری حسن کے دلدادہ ہوجاتے ہیں یا اسکے احسان ومروت پر فریفتہ۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حسن ظاہری وباطنی اور احسان و ہمدردی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نےآپکو اپنےلئے چن لیا ہےاور آپکے دل میں احباب جماعت کے لئے بے پناہ محبت کے جذبات ودیعت کردئے ہیں یہ اسی الٰہی الفت کا کرشمہ ہے کہ لاکھوں پروانے اپنی شمع محبت کے گرد جمع ہوجاتے ہیں ۔ یہ عشق محبت کی آگ دو طرفہ ہے۔ خلیفہ وقت کے دل میں احباب جماعت کے تئیں عشق و محبت کے جذبات موجزن ہوتےہیں ۔ اسی محبت کے باعث وہ اپنے حبیبوں کو شرف ملاقات بخشنے کے لئے ہزاروں میل کا سفر اختیار کرتےہیں۔ ان بستیوں میں ظاہری چمک ودمک سے عاری بستیاں بھی ہوتی ہیں اور ویرانی بیابانی کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے ہر دشت کو سر کیا اور ہر بحر کو عبور کیا۔ جیسا کہ شاعر نے کیا خوب فرمایاہے

دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے

اس زمانے کی یاد آج حضرت مسیح پاک کے غلام اورہمارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات اقدس میں ہمیں نظر آتی ہے۔ عشق و محبت کی اس کیفیت پر یہ شعر بالکل صادق آتاہے کہ

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

 چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

حضرت امام عالی مقام عشق وفدائیت کے جو جذبات احباب جماعت کے تئیں رکھتے ہیں انکو الفاظ کاجامہ پہنانامشکل ہے۔ خلیفۃالمسیح کی محبت اور ہمارے لئے تڑپ ہی ہمیں باقیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ؛کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے۔ کوئی بھی فرق نہیں۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگران کے لیے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کا ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے ا نسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔ پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ہاںتمہارے لیے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔

(برکات خلافت انوار العلوم جلد دوم صفحہ158 )

احباب جماعت کے تئیں انہی محبت اور اخلاص کے جذبات کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں؛   جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکرخلیفٔہ وقت کو رہتی ہے۔ …کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہویا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفٔہ وقت کی نظر نہ ہو۔ اور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو…دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں، میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لیے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ (روزنامہ الفضل یکم اگست 2014ء)

یہ وہ الٰہی رحمت والفت ہے جس سے جماعت احمدیہ کے احباب آج متمع ہورہے ہیں۔ خلیفۃالمسیح کے اس حسن و احسان کی قدردانی ہر احمدی پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب خدام ِ احمدیت کو اس امر کی توفیق وسعادت عطا فرمائے۔ آمین۔ خلیفۃالمسیح کے دل میں احباب جماعت کے تئیں جو سوز وتڑپ ہوتی ہے اسکا اندازہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔

تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے میری دعائیں تمہاری دولت

تمہارے درد و الم سے تر ہیں مرے سجود قیام کہنا

 نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)