قرآن ناطق (اداریہ – اگست ۲۰۲۱)

حضرت علیؓ کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتاہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ’’میں قران ناطق(بولنے والاقرآن ) ہوں اور کتاب اللہ کتاب صامت یعنی خاموش کتاب‘‘ ہے۔اس قول کے پس پردہ دراصل یہ حکمت کارفرمانظر آتی ہے کہ کتاب اللہ کی اصل حکمت خداکے رسول اور اسکے ہدایت یافتہ خلفاء پر ہی بدرجہ اتم منکشف ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےیہی بات بیان فرمائی ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ کا کام کتاب اللہ کی آیات بیان کرنا اور انکی حکمت اور تعلیم سے آگاہ کرناہے۔

نبی کی نیابت میں یہی کام خلیفہ وقت کے ہوتےہیں ۔کیونکہ خلافت نبوت کی نہج پر ہوتی ہے۔ اور نبی جس مشن کے ساتھ مبعوث ہوتاہے اسی مشن کو جاری وساری رکھنے کے لئے خلافت کاقیام ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ خلافت کی خلعت سے سب سے موزوں شخص کو سرفراز فرماتاہے۔ اور خدا کی فعلی شہادت سے خلیفہ وقت کے انتخاب پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ جماعت احمدیہ میں جاری خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کے آسمانی نظام کے ساتھ خدائی تائید و نصرت اور فعلی شہادت کو ہم ہرآن بچشم خود مشاہدہ کررہے ہیں ۔حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھوں جس بیج کی تخمریزی ہوئی تھی وہ آج خلافت کے زیر سایہ پھل پھول رہاہے۔ اس شجرہ طیبہ کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے پیوستہ ہیں اور اسکی شاخوں کی رفعت آسمان ہدایت کو چھورہی ہیں ۔اس تناور درخت کے زیر سایہ ہر ایک کےلئے راحت و آرام کا سامان میسر ہے۔ الحمدللہ۔

ہماری ساری ترقیات کادارومدار خلافت سے وابستگی میں پنہاں ہے۔ ہم خلافت خامسہ میں  انی معک یامسرور کے الہام کی تکمیل کے نظارے آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں ۔ہمارے امام عالی مقام خدائی نور اور فراست سے دیکھتے ہوئے زمانے کے تقاضے کے مطابق قرآنی علوم و معارف سے ہمیں آگاہ فرمارہے ہیں ۔بر صغیر پاک و ہند کے مشہور عالم اور سیاستدان مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کے لئے ایک خلیفہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھاکہ ’’صرف اس کی زبان گویا ہو اور باقی سب گونگے‘‘آج مسلمانوں کے شیرازےکے بکھرنے اوراجتماعیت کے فقدان کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں کسی آسمانی روح رکھنے والےوجودکی صدا بلند نہیں ہورہی جسکی آواز پر امت لبیک کہے۔

آج مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کا راز خلافت احمدیہ کےساتھ وابستگی میں پنہاں ہے۔ مذاہب کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ آسمانی آواز میں ہی وہ کشش ہوتی ہے جو سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ملکہ رکھتی ہے۔یہ آواز مردہ دلوں کے لئے آب حیات ہے۔ ہماری روحانی زندگی کی بقااسی آب حیات کے ساتھ وابستہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلیفہ وقت کے منہ کی طرف اپنے دھیان کو مرکوز کرنے کی توفیق دے اور خلیفہ وقت کے منہ سے جوزندگی بخش باتیں نکلتی ہیں ان کے لئے اپنی جھولیا ں پھیلاتے ہوئے اپنی جھولیاں خیرو برکت سے بھرنے کی توفیق وسعادت عطا فرمائے۔ آمین۔                    (نیاز احمدنائک)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)