میں عافیت کا ہوںحصار (اداریہ – مارچ ۲۰۲۱)

اس زمانہ کے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ۔اور اس وقت آپ کو اسلام کی اصلاح وتجدید کا کام تفویض کیا جب زمانہ خود اس کا متقاضی تھا کہ کوئی مصلح آنا چاہے ۔یہی ایک مامور من اللہ کی صداقت کی دلیل ہوا کرتی ہے کہ وقت اس کو خود پکار رہاہوتاہے ۔جیساکہ آپؑ خود بھی فرماتےہیں کہ

وقت تھاوقت مسیحانہ کسی اور کا وقت

میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

ضرورت زمانہ کے علاوہ خداتعالیٰ کی تائید و نصرت اور گزشتہ انبیاء کی پیشگوئیاں اور سلف صالحین کی پیش خبریاں کسی بھی مامور کے لئے کسوٹی ہوا کرتے ہیں ۔ا ن تینوں معیاروں پر حضرت مرزاغلا م احمد قادیانیؑ کھرے اترتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید و نصر ت میں ہزارہا نشانات دکھائے ۔آپ نے اپنے مخالفوں کو کچھ یوں للکارا ۔لیکن کوئی مرد میدان نہ بنا

ہے کو ئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر

میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں باربار

اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بھی آپ کی تائید و نصرت فرمائی کہ جو آپؑ کی ہزیمت چاہتے تھے انکو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔آپ ؑ کے مخالفین وجاہت اور جمعیت رکھتے تھے اور آپ اپنی ہی گمنام بستی میں گمنام تھے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری دی کہ حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں اور دشمنوں کی دشمنیاں عبث ۔آپؑ کیا خوب فرماتے ہیں :

گڑھے میں تونے سب دشمن اتارے

ہمارے کردئے اونچے منارے

ایک طرف اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کی صف لپیٹ لی ۔دوسر ی طرف آپ کے محبین کی گروہ میں بے پناہ اضافہ کرتارہا۔کیونکہ خداتعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ‘‘اور آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں بٹھاؤں گا ۔چنانچہ آپ کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو بڑی صفائی سے پورا فرمایا اور ہزاروں کی تعداد میں عشاق عقیدت کا نذرانہ لے کر آئےاور اس الٰہی وعد ےکو دیکھ کر ہی آپؑ نے برجستہ فرمایا:

لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی

میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی

اب دیکھتے ہو کیسارجوع جہاں ہوا

اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا

قادیان تخت گاہ رسول ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس بستی کا ہمیشہ پاس رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طاعون کے زمانہ میںاس بستی کی از خود حفاظت فرمائی اور حضرت مسیح موعودؑ کے گھر کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص حفاظت فرمائی تھی۔ اور خوشخبری دی تھی کہ انی احافظ کل من فی الدار۔یعنی جو بھی آپ کے گھر میں صحت نیت کے ساتھ داخل ہوگا اس کو امان دیا جائے گا۔اس جگہ رحانی گھر بھی مراد تھا یعنی جو آپ کی تعلیمات پر پوراپورا عمل کریگااللہ تعالیٰ اسکی بھی حفاطت فرمائے گا۔آج جب کہ دنیا میں کروناوائرس اور دیگر وبائیں دنیا میں قہر برپا کر رہی ہیں تو دنیا کو اپنے خالق و مالک کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں زندہ خداسے متعارف کروایاہے ۔آپ ؑ اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفے ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کو تباہی و بربادی سے بچاناچاہتے تھے تبھی انتہائی محبت و ہمدردی سے خلق خداکو اپنے خالق ومالک کی طرف بلاتے تھے تاکہ لوگ دنیوی حسنات کے ساتھ ساتھ اخروی نعمتوں کے بھی وارث بن جائیں ۔آپؑ کیا خوب فرماتے ہیں ۔

صدق سے میر ی طر ف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کاہوں حصار  نیاز احمدنائک

نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)