کلام الامام المہدی علیہ السلام – مارچ ۲۰۲۱

حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

نراعلم وفن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی

جس قدر ابرار ،اخیار اور راستباز انسان دنیا میں ہوگزرے ہیں ،جورات کو اٹھ کر قیام اور سجدہ میں ہی صبح کردیتے تھے،کیا تم خیال کرسکتے ہوکہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے اور بڑے بڑے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے؟ نہیں۔ یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کام ہر گز نہیں ہو سکتے جو روحانی قوّت اور طاقت کرسکتی ہے۔بہت سے انسان آپ نے دیکھے ہوں گے جو تین یا چار بار دن میں کھاتے ہیں اور خوب لذیذ اور مقوّی اغذیہ پلائو وغیرہ کھاتے ہیں۔مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتاہے۔ صبح تک خراٹے مارتے رہتے ہیں اور نیند اُن پر غالب رہتی ہے۔ یہانتک کہ نیند اور سستی سے بالکل مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اُن کو عشاء کی نماز بھی دوبھر اور مشکلِ عظیم معلوم دیتی ہے۔چہ جائیکہ وہ تہجد گزار ہوں۔…دیکھو!آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کِبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعّم پسند اور خوردونوش کے دلدادہ تھے جو کفار پر غالب تھے؟ نہیں۔یہ بات تو نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی اُن کی نسبت آیاہے کہ وہ قائم اللیل اور صائم الدہر ہوں گے ۔ان کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتی تھیں۔ اور اُن کی زندگی کیسے بسر ہوتی تھی؟…

پس سمجھ لو اور خوب سمجھ لو کہ نراعلم وفن اور خشک تعلیم بھی کچھ کام نہیں دے سکتی جب تک کہ عمل اور مجاہدہ اور ریاضت نہ ہو۔دیکھو سرکار بھی فوجوںکو اسی خیال سے بیکار نہیں رہنے دیتی ۔عین امن وآرام کے دنوں میں بھی مصنوعی جنگ برپا کرکے فوجوں کوبیکار نہیں بیٹھنے دیتی اور معمولی طورپر چاند ماری اور پریڈ وغیرہ تو ہر روز ہوتی ہی رہتی ہے۔… اسی طرح نفوس انسانی کامل ورزش اور پوری ریاضت اور حقیقی تعلیم کے بغیر اعداءاللہ کے مقابل میدان کارزارمیں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 54تا56۔ایڈیشن1984ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)