Birth Controlکچھ باتیں کچھ حقائق

تبریز احمد سلیجہ مربی سلسلہ دارالضیافت قادیان

ایک اعتراض اسلام پر یا مسلمانوں پریہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام نے کثرت سے بچوں کے پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے یا آج کل بعض غیر مسلم ادارے اس بات کو بہت زیادہ propogateکر رہےہیںمسلمانوں کی تعداد ہندوستان میں بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ اور اگر ان کوcontrolنہیں کیا گیا تو جلد ہی یہ لوگ ہندؤںسے زیادہ ہو تے ہوئے اکثریت میں آجائیں گے اور یہ ہندؤ ںکے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مذہب نے ہی بچے پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے ، اور دنیا کا کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے جو اس سے اچھوتا ہے۔ مثلا اگر ہندؤ  مذہب کو ہی لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس مذہب میں جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو اس کو یہ دعا دی جاتی ہے :

سو بھاگواتی بھوا(دعا ہے کہ تم نیک قسمت ہو)

شت پترا واتی بھوا(تمہارے 100 بیٹے ہوں)

اشٹا پترا  واتی بھوا(تمہارے 8 بیٹے ہوں)

اور پھر والد کی وفات پر بھی اس کا بیٹا ہی اس کو مکھ اگنی دیگا تو ہی اس کے والد کو موکش(نجات) مل سکتی ہے۔ اور پھر ہمارے ہندؤ بھائیوں میں ’’ دودو نہاؤ  پوتوں پھلو ‘‘ کی بھی دعا دی جاتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ تم دودھ میں نہاؤ اور تمہارے بہت بیٹے یا پوتے ہوں۔

مندرجہ بالا ہندؤ مذہب کی تعلیمات سے نا صرف یہ پتہ چلتا ہے ہندؤمذہب میں کثرت اولاد کے لئے دعا دی گئی ہے بلکہ کثرت کے ساتھ نرینہ اولاد پیدا کرنے کی تعلیم موجود ہے ۔ ہندوستان کا سمویدھان اورconstitution تو مرد اور عورت کو برابر قرار دیتا ہے اس کےباوجود اگر ہندو مذہب میں اس قسم کی تعلیم اور دعا ہے تو اس کا جواب ہمارے ہندؤ بھائیوں کے ذمہ ہے۔

اب کوئی بتائے کہ اس قسم کی تعلیم کے باوجود صرف اسلام پر یہ الزام لگا نا کہ صرف اسلام نے ہی کثرت اولاد کی تعلیم دی ہے یہ ایک سفید جھوٹ ہے ۔ ہر مذہب نے ہی شادی کے جہاں دوسرے مقصد بیان کئے ہیں وہاں ایک مقصد اولاد کو پیدا کرنا بھی ہیں۔

بہر حال ہندوستان میں آج کل اس تعلق سے تین بڑی fake news بیان کی جاتی ہیں: 1)مسلم آبادی جلد ہی ہندؤ آبادی سے زیادہ ہو جائے گی۔ 2)مسلم مرد چار شادیاں کرتے ہیں اور کئی بچے پیدا کرتے ہیں(اس لئے ان کی آبادی بڑھ رہی ہے)۔ 3) مسلم لوگ family planning   یا contraceptionپر عمل نہیں کرتے ہیں یا اس کے لئے ابھی تیارنہیں ہیں۔

ان تمام باتوں کا جواب ذیل کے مضمون میں حقائق و دلائل کے ساتھ دیا جائے گا۔ واضح ہو کہ جو بھی آنکڑے یا data دیا جارہا ہے یہ کسیservey کی بنا پر نہیں بلکہ یہNational Heath and Family Welfareکا dataہے ۔

1)مسلم آبادی جلد ہی ہندؤ آبادی سے زیادہ ہو جائے گی: اس fake news کے بارے دلیل کے طور پر یہdataدیا جاتا ہے کہ

سنہندؤ کی آبادیمسلمانو ں کی آبادی
2001 5.80 فی صد4.13 فی صد
20118.79 فی صد2.14 فی صد
نتیجہ7.0 فی صد کی کمی آئی ہے8.0 فی صد کا اضافہ ہوا ہے

یہ ایک news بیان کی جاتی ہے مگر اس کےپیچھےجو اصل factsہیں اس کو چھپایا جاتا ہے ۔وہ یہاں پر بیان کئے جائیں گے۔  ہر 10 سال میں حکومت کی طرف سے یہ data  بھی دیا جاتا ہے کہreligion wise  ہندوستان کی آبادی میں کتنا اضافہ یا کمی ہوئی ہے۔ مثلاً

 1991-1981 تا 2001-1991 (دو  سنسس )2001-1991 تا 2011-2001 (دو سنسس)وضاحت
ہندؤ مذہب8.2-   فی صد1.3- فی صدہندو مذہب میں جس حساب سے آبادی بڑھ رہی تھی اس حساب سے اس میںکمی آئی ہے اس میں 1.3 – فی صد  کی کمی رہی ہے ۔ تازہ  data کے حساب سے۔
اسلام4.3- فی  صد9.4- فی صدجبکہ مسلمانوں میں جس حساب سے آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا اس حساب سے 9.4- فی صد کمی آئی ہے جو کہ تقریبا 5 فی صد بنتا ہے۔

 سچّر کمیٹی رپورٹ (Sachar Committee report ) بھی یہ کہتی ہے کہ 2100 ء تک ہندؤ کی آبادی میں جو اضافہ ہے اور مسلم آبادی میں اضافہ تقریبا برابر ہو جائے گا ۔ اور یہ دونوں مذہب کی آبادی ایک pointپر آکر رُک جائے گی ۔ ہندؤ کی آبادی تقریبا76-75 فی صد اور مسلم آبادی 20-19 فی صد پر آکر رُک جائے گی۔

ایک اہم بات :آبادی میں اضافہ کو کسی مذہب سے جوڑنا بالکل غلط ہے ۔ آبادی میں اضافہ کےsocial reasons ہوتے ہیں۔ P.E.W. جو دنیا کی آبادی پر نظر رکھتی ہے، اس نےدنیا میں آبادی کی مندرجہ ذیل چار وجوہات بیان کی ہیں:

1)تعلیم کی کمی ، خاص طور پر عورتوں میں تعلیم کی کمی                                              2)رہن سہن(standard of living)

3)فیلمی پلاننگ(contraception)                                           4)Urbanisation(شہری زندگی)

ان وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے 5-4 صوبہ جات(یوپی ، بہار، جھارکھنڈ ، آسام وغیرہ) ایسے ہیں جن میں آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ہند کے صوبہ جات میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اور اس کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہےمثلا  ہم بہار کے ہندؤاور کیرالہ کے مسلمانوں کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں ۔

سنسس 2001تا2011بہار میں ہندؤ کی آبادی میں اضافہکیرالہ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ
2001 تا 20116.24+   فی صد9.12 + فی صد

اب اس کو کسی مذہب سے ساتھ جوڑنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔لازما PEW  نے جو چار وجوہات بیان کی ہیں ۔ ان کی ہی وجہ سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس بھی صوبہ تعلیم ،اچھا رہن سہن، health Careوغیرہ کا اچھا انتظام ہے ہم دیکھتے ہیں وہاں پر آبادی میں اضافہ بہت کم ہو رہا ہے ،نا صرف ہندؤ میں بلکہ مسلمانوں کی بھی۔

2 ) دوسری fake newsیہ بیان کی جاتی ہے مسلمان مرد چارشادیاں کر تے ہیں اور کئی کئی بچے پیدا کرتے ہیں :یہ ایک ایسی بات ہے اس کو سمجھنے کے لئے اگر کسی کے پاس تھوڑی سی بھی عقل و فہم اور logicہو تو سمجھ سکتا ہے۔ مثلا نا صرف ہندوستان میںبلکہ پوری دنیا میں عورت اور مرد کی تعداد معین ہے ۔ہندوستان میں تازہ dataکے مطابق 924 عورتوں کی تعداد پر 1000 مرد ہیں۔ اور بعض صوبہ جات میں تو عورتوں کی تعداد اس سے بھی بہت کم ہے۔ اور مسلمانوں میں 928 عورتوں کی تعداد پر 1000 مرد ہیںاب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر مسلمان مرد چار بیویوں سے شادی کر رہے ہیں تو ہندوستان میںعورتوں کی تعداد بھی اتنی نہیں ہے کہ ایک مرد چارعورتوں سے شادی کر سکے۔اور اگر بالفرض ایک منٹ کے لئے یہ بات مان لی جائے کہ مسلمان مرد چار بیویاں اور کئی بچے پیدا کرتے ہیں تو بھی اس بات کوایک مثال کے ذریعہ بہت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے مثلااگر ایک جگہ پر for example  چار مرد اور چار عورتیں ہوں ان میںایک مرد ہی چار عورتوں سے شادی کر لے اور باقی تین مرد کسی سے شادی نہ کر پائیںگے تو ایک مرد چار بیویوں سے جتنی اولاد پیدا کریگا اتنے ہی اولاد چار مرد چار عورتوں سے کریں گے۔بلکہ ایک مرد کا چار عورتوں سے comparinglyکم اولاد پیدا کر پائے گا۔ کیونکہ fertility rate بھی کم ہو جائے گا۔تو یہ بات بالکل ہی illogical ہے جو مسلمانوں کے متعلق بیان کی جاتی ہے۔ذیل میںfertility rate کا بھی ایک data پیش کیا جا رہا ہے جس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے مسلمانوں میں fertility rateکس قدر کم ہوا ہے۔

سنہندؤ عورت کاfertility rateمسلم عورتوں کا fertility rate
93-19923.34.4
06-20057.21.3
نتیجہ(result)6.0 – فی صد3.1- فی صد

علاوہ ازیں P.E.Wکے مطابق دُنیا کے ممالک میں fertility rate  کا ایک data پیش کیا ہے:

تفصیل ممالک95-19902030-35نتیجہ
مسلم ممالک3.4 فی صد3.2 فی صد2 فی صد کمی
غیر مسلم و غیر ترقی یافتہ ممالک3.3 فی صد3.2 فی صد1 فی صد کمی
غیر مسلم ترقی یافتہ ممالک7.1 فی صد7.1 فی صدAs it was

PEWنے دُنیا کے مذابت کاfertility rate کا ایک اورdata پیش کیا  ہے:

مذہب15-201055-2050نتیجہ
عیسائی مذہب7.23.24.0 کی کمی
مسلم1.33.28.0 کی کمی
ہندؤ مذہب4.29.15.0 کی کمی
global average5.21.24.0 کی کمی
 یہودی مذہب3.21.22.0 کی کمی

3) تیسری fake newsیہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلمان family planningنہیں کرتے ہیں۔ یا contraceptionپر عمل کرنے کے لئے تیار نہیںہیں: اس بات کا ازالہ تو مندرجہ بالا data سے ہو جاتا ہے کیونکہ اگر مسلمان family planning کی طرف توجہ نہیں دے رہیں ہیں تو ان کی عورتوں میں fertility rateمیں لگاتار کمی کیو ں آرہی ہے ؟؟مگر اس بات کو بھی ہم National Heath and Family Welfare کے data سے ثابت کرتے ہیں:

سالہندؤ فیملیز میں family planningیاcontraceptionکا رجھانمسلم فیملیز میں family planningیاcontraceptionکا رجھان
93-19926.41 فی صد7.27 فی صد
06-20058.57 فی صد7.45 فی صد
نتیجہ2.16+ فی صد18 + فی صد

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں غیر معمولی طور پر  اضافہ کی بات جو بعض ہندؤتنظیمیں کر رہے ہیں یہ بالکل غلط ہے ۔ دراصل آبادی میںغیر معمولی اضافہ ہندوستان کے 5-4شمالی ہند کے صوبہ جات میں ہی ہو رہا ہے اور وہ بھی صرف مسلمانوں میں نہیں بلکہ ہندؤ ں کی تعداد میں بھی ہو رہا ہے۔ اور اس کی وجہ مذہبی تعلیم نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ معاشری یا ساماجک ہےجیسا کہ P.E.W.کی رپورٹ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔اگر ہندوستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا ہے تو حکومت کا اور سماج کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں خاص طور پر عورتوں کو تعلیم یافتہ بنائیں۔بعض ہندؤ تنظیم کہانیوں کے طور پر بہت سی ایسی باتیں بیان کرتی ہیں کہ 50-2040ء میں مسلمان اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ ہمارے مندر نہیں رہیں گے۔ ہر جگہ مسجد تعمیر ہوں گی ،ہندؤ کو اپنی عبادت سے روکا جائے گا، ہندوستان کو اسلامک ملک بنا دیا جائے گا۔ ہمیں ان کو روکنا ہوگا ورنا ہماری اگلی نسل خطرہ میں آجائے گی وغیرہ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں آج سے نہیں بلکہ کئی دہاکوں سے کہی جا رہی ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ90-1980 ءکے دہاکے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ سب 30-2020 ءتک ہو جائے گا اور اب اس کو آگے بڑھاکر 60-2050 ءتک لے جایا جا رہا ہے۔سمجھدار انسان اس کو با آسانی سمجھ سکتا ہے۔مندرجہ  بالا data سے تو یہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح واضح بھی ہو جاتی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھائےاور سد بدھی دے آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)