یہ وہ دن ہیں جو مجھے یاد ہیں (اداریہ – اکتوبر ۲۰۲۱)

خدام الاحمدیہ جماعت احمدیہ میں نوجوانوں کی وہ تنظیم ہے جس کا ہدف خدمت انسانیت ہے۔ خدام کی خدمت کا دائرہ احباب جماعت احمدیہ تک ہی ممتد نہیں ہے۔ خدام کے اندر خدمت کا بے لوث جذبہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم سے ہی ودیعت کیا جاتاہے۔ اور جذبہ اس کے فروغ کے لئے شروع سے نوجوانوں کی ٹرینگ ہوتی ہے۔ اور انکے اندر مسابقت فی الخیرات کی روح اجاگر کی جاتی ہے۔ ٹرینگ کے ان پروگرامز میں سے اجتماعات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے اجتماعات سیر وتفریح کی خاطر نہیں ہوتے بلکہ ان کا مقصد خدام کی علمی ،ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو قوی کرنا ہوتاہے اور بدنی لحاظ سے ان کو مضبوط اور مستحکم بناناہوتاہے۔ علمی اور بدنی لحاظ سے قوی انسان کو ہی لیڈر شپ کا اہل سمجھا جاتاہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں بھی آیا ہے کہ طالوت کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہ اس لئے بنایاکہ وہ وہ علمی اور جسمانی لحاظ سے قوی تھا۔

اجتماعات میں مسابقت فی الخیرات کی روح ترقی کرتی ہے۔ اور آپسی بھائی چارہ اور تعارف بڑھتاہے۔ ایک دوسرے کے تجربات کو سننے کا موقع ملتاہے۔ سالانہ اجتماع کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے یہ مرکز احمدیت قادیان میں منعقد ہوتاہے۔ یہاں کی روحانی فضامیں نوجوانوں کی روح میں ایک نئی تازگی آتی ہے۔ مسیح پا ک کی پاکیزہ بستی میں موجود شعائراللہ نوجوانوں کی روحانیت میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔ کووڈ کے موجودہ حالات میں اجتماعات کافی عرصے سے منعقد نہیں ہورہے تھے۔ جس کی وجہ سے خدام اور اطفال کے کاموں میں ایک طرح کا رخنہ پڑا ہوا تھا۔ لیکن پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خاص توجہ اور شفقت کانتیجہ ہے کہ جماعتی جلوس اور اجتماعات دوبارہ منعقد ہورہے۔ اللہ تعالیٰ ان اجتماعات کو ہماری رحانیت میں ترقی کا موجب بنائے اور ہمیں خلافت احمدیہ کےساتھ وابستگی میں مزید پختہ اور مستحکم کرے۔ حال ہی میں پیارے آقاسے ایک virtual ملاقات میں خدام الاحمدیہ سےوابستہ ذاتی یادوں کے بارے میں پوچھاگیا۔ تو حضورانور نے فرمایاکہ ؛

‘‘میری خدام الاحمدیہ سے جڑی ہر یاد خوشگوار ہے۔ جب آپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو جوانی کی ہر بات آپ کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب خدام الاحمدیہ میں ہم اپنا اجتماع منعقد کرتے تھے اور وہ کھلی فضا میں منعقد ہوتا تھا، ہم خود شامیانے لگاتے تھے اور باقاعدہ مارکی نہیں ہوتی تھی جیسی آج کل یورپ میں یا دوسری جگہوں پر ہو تی ہے۔ ہم اپنی بیڈشیٹس سے ٹینٹ بناتے تھے۔ اور جب بارش ہوجاتی تھی تو قطرے اندر بھی آجاتے تھے کیونکہ وہ waterproof نہیں تھے۔ تو ہم ان دنوں میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے اور کیمپنگ کا بھی مزہ لیتے تھے۔ تین دنوں تک ہم اس کیمپ میں رہتے تھے۔ ساری جگہ کی ایک باڑ لگا کر حد بندی کردی جاتی تھی اور ایک کھلے میدان میں یہ سارا عارضی انتظام ہوتا تھا۔ پھر جلسہ یا اجتماع کی مارکی بھی وہیں لگتی تھی وہ بھی waterproof نہیں ہوتی تھی جیسی یہاں ہوتی ہے اور اگر بارش ہو جاتی تھی تو ہم پوری طرح بھیگ جاتے تھے۔ تو اس طرح ہم اپنے دنوں میں مزہ کرتے تھے۔ پھر وہیں کھانا پکتا تھا اور ہم بالٹی میں اپنا کھانا لاتے تھے۔ ایک ٹینٹ میں 10 افراد ٹھہر سکتے تھے۔ تو یہ وہ دن ہیں جو مجھے یاد ہیں اور جن کو یاد کرکے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔’’(الفضل 29 ستمبر 2021)

اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطافرمائے۔ اور ہمیشہ بانئی تنظیم حضرت مصلح موعود کی اس نصیحت کو ملحوظ نظر رکھنے کی توفیق عطافرمائے کہ

اپنی اس عمر کو اک نعمت عظمیٰ سمجھو     بعد میں تاکہ تمہیں شکوہ ایام نہ ہو

 (نیاز احمدنائک)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)