اسلام اورگھریلو ہنسا

طلحہ احمد چیمہ مربی سلسلہ شعبہ نور الاسلام قادیان

گھریلو ہنسا یعنی Domestic Violence یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم سب اتفاق کریں گے کہ مہذب معاشروں میں گھریلو ہنسا کا ہونا ایک قابل شرم بات ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ تمدن کی تمام تر ترقی کے باوجود مشرق ہو یا مغرب ہر جگہ خواتین کو گھر کے اندر اور باہر بہت سی زیادتی و مشکلات اور خوف کا سامنا ہے گھریلو ہنسا اس ظلم کی ایسی ہی ایک قسم ہے۔

گھریلو ہنسا آج ایک عالمگیر مسئلہ بن گیا ہے۔ اس کا تعلق پدر سری (Patriarchal) معاشرے سے اتنا نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اصل وجوہات انسانی نفسیات میں پائی جانے والی بعض کمزوریاں ہیں۔ اسلام نے انہیں کمزوریوں کی اصلاح کرکے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا گھر امن و سکون اور محبت اور پیار کا گہوارہ ہو جہاں نفرتوں، تلخیوں اور کدورتوں کی بدبودار ہواؤں کی جگہ محبت اور خوشبو کی معطر اور خوشبودار فضائیں ہر سو پھیلی ہوں۔ ہمارے دین اسلام نے اپنے گھر کو جنت نظیر بنانے اور خوش و خرم عائلی زندگی گزارنے کے نہایت پیارے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں قبل اس کے کہ اسلام کے رہنما اصول پیش کیے جائیں ضروری ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جو اس مسئلہ کے پیچھے کار فرما ہیں۔

انسانی نفسیات کی شاید یہ سب سے بڑی کمزوری ہے کہ طاقت انسان کو ظلم و زیادتی کی طرف لے جاتی ہے اس حوالے سے تین چیزیں ایسی ہیں جو کہیں جمع ہوجائیں تو اکثر طاقت، ظلم میں بدل جاتی ہے۔

(i پہلی چیز یہ کہ طاقت ظلم میں اسی وقت بدلتی ہے جب سامنے کوئی کمزور شخص ہو۔ زیادہ طاقتور کے مقابلے میں طاقت استعمال نہیں ہو سکتی۔

(ii دوسری چیز یہ ہے کہ طاقت، ظلم و تشدد میں اسی وقت بدلتی ہے جب طاقتور کو کسی بالاتر اتھارٹی کا خوف نہ ہو جو اسے اس ظلم و تشدد پر پکڑ سکے ۔

(iii تیسری حقیقت یہ ہے کہ طاقت عام طور پر اس وقت استعمال ہوتی ہے جب انسانوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ اختلاف جھگڑے تک پہنچتے ہیں اور پھر یہی وہ وقت ہوتا ہے جب طاقتور اشتعال میں آکر کمزور انسان پر تشدد کرتا ہے ۔

بدقسمتی سے طاقت کے حوالے سے یہ تینوں چیزیں ایک گھر میں ایک ساتھ جمع ہوتی ہیں۔ خاندان کا ادارہ مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ اس تعلق میں ایک طرف مرد ہے جو جسمانی طور پر طاقتور ہے اور دوسری طرف عورت ہے جو جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے۔ مرد اگر تشدد پر آمادہ ہوجائے تو گھر میں موجود کسی فرد میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ مرد تشدد پر آمادہ ہوجائے تو عورت کو بچا سکے تیسری حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے جس میں مختلف مزاج ذہن اور پس منظر کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں چنانچہ اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ یہ اختلاف بڑھ جائیں تو فریقین میں اشتعال پیدا کرتے ہیں۔ بیوی غصے میں آئے گی تو شاید اس کے غصّے کا اظہار کسی اور طرح ہو مگر شوہر غصے میں آتا ہے تو اس کا نتیجہ بارہا بیوی پر تشدد کی شکل میں نکلتا ہے ۔

اسلام اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ان تینوں وجوہات کو ایڈریس کرتا ہے جس سے یہ مسئلہ بڑی حد تک ختم ہو جاتا ہے۔ مگر اسلام کا حل پیش کرنے سے پہلے یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ تشدد اور ظلم کا یہ مسئلہ تنہا گھریلو ہنسا تک محدود نہیں۔ یہ انسانی نفسیات کی کمزوری ہے کہ انسان کمزور کے مقابلے میں اخلاقی حدود کی پاسداری نہیں کرتا اور ہر جگہ ظلم و تشدد پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

اسلام کے نزدیک خرابی دراصل انسان کی ہے قرآن کریم نے نہ صرف گھریلو ہنسا بلکہ ظلم و زیادتی کی ہر قسم کو ختم کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ قانون سازی سے زیادہ انسانوں کی تربیت پر مبنی ہے۔

ابھی جو تین مسائل خاکسار نے بتائے ہیں ان میں سے پہلا مسئلہ یہ تھا کہ خاندان جسمانی طور پر ایک طاقتور مرد اور ایک کمزور عورت سے مل کر بنتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ یہ کائنات بنانے والے کی اپنی اسکیم ہے جس میں مرد جسمانی طور پر عورتوں سے طاقتور ہیں۔ اس کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ یہ موضوع گفتگو نہیں ہے۔ بہرحال قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ گفتگو کرتا ہے تو وہ طاقت کےاس توازن کو بدلنے کی بات نہیں کرتا بلکہ انسانوں کا تصورِ زندگی بدلنا چاہتا ہے۔

 اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح کرتا ہے کہ اس دنیا میں انسان امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون ہے جو اپنے اختیار اور طاقت کو خدا کے سامنے جھکا کر طاقت کے بجائے اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر زندگی گزارتا ہے۔ سورۃ النحل آیت نمبر 91 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰی وَيَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۹۱ ترجمہ: یقیناًً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباءپر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔ یہ آیت اگرچہ ہر جگہ انسان کو زندگی گزارنے کا بنیادی اصول دیتی ہے مگر نکاح کے رشتے میں بندھنے والے مرد کے لیے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ بیوی سے عدل کرے یعنی جو اس کا حق ہے اسے دے، اس کے ساتھ احسان کرے۔ تیسرا یہ کہ اس پر اپنا مال خرچ کرے۔ خیال رہے کہ نکاح کے رشتے میں دین اسلام کا قانون یہ ہے کہ عورت کی رہائش، لباس، خوراک اور ہر دیگر ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری مرد کی ہے۔ اس کے بعد اس آیت میں تین چیزوں سے روکا گیا ہے۔ پہلی یہ کہ مرد اپنی بیوی سے بے وفائی نہ کرے۔ دوسری عورتوں سے ناجائز تعلق رکھ کر اسے ذہنی اذیت نہ دے اور آخری چیز یہ کہ بیوی پر کسی قسم کے ظلم و زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔ یہ ساری چیزیں خواتین سے بھی اسی طرح مطلوب ہیں۔ مگر مرد چونکہ طاقتور ہے اور خلاف ورزی کا اندیشہ بھی اسی سے ہے۔ اس لیے مرد بدرجہ اَولیٰ ان آیات کے مخاطب ہیں۔

آپ غور کیجئے اگر یہ چھ چیزیں کسی بھی تعلق میں موجود ہوں تو اس میں نہ بیوی کو ذہنی اذیت ملے گی نہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا نہ اس کے ساتھ کوئی اور بُرا رویہ اختیار کیا جائے گا بلکہ مرد کا مال عورت پر خرچ ہوگا۔ وہ اس کے ساتھ عدل ہی نہیں کرے گا بلکہ احسان بھی کرے گا۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا ہے:

’’ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ یعنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہوں۔‘‘

(تر مذی)

پھر مردوں کو مزید اس رشتے کے حوالے سے خاص طور پر یہ بات سمجھائی گئی ہے وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝(النساء: 20)

یہ آیت مردوں کے اس نفسیات کو بتاتی ہے کہ جس میں کوئی لڑکی شادی سے پہلے بڑی اچھی لگتی ہے، مگر شادی کے بعد اس کے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھاتا ہے،کہ ہو سکتا ہے کہ بیوی کی کوئی بات تمہیں ناپسند ہو لیکن درحقیقت اللہ نے اس میں بہت خیر رکھی ہے، جسے تم اپنی ذاتی رجحان کی بنا پر نہ دیکھ سکتے ہو۔

رہی دوسری بات یعنی طاقتور کمزور کے مقابلے میں بے خوف ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے ظلم پر اُسے کوئی پکڑنے نہیں آئے گا، قرآن نے اس کو اپنا مستقل موضوع بنا لیا ہے۔ چنانچہ جو حکم آپ کو قرآن میں سب سے زیادہ نظر آئے گا وہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا حکم ہے۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ جان لے کہ خدا بہت طاقتور ہے اور انسان کسی صورت اس کی پکڑ سے بچ کر نہیں بھاگ سکتا۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا تمہاری نگاہ کی خیانت بھی جانتا ہے اور جو تمہارے دل میں پوشیدہ ہے وہ بھی۔ قیامت کے روز جب تم اس کے سامنے پیش ہوگے تو اپنے ایک ایک قول و فعل کو پاؤگے۔ رائی کے دانے کے برابر بھی برائی کروگے تو اسے اپنے نامۂ اعمال میں دیکھ لو گے۔

 پھر قرآن خاص طور پر جنت اور جہنم کا تفصیلی نقشہ کھینچ کر لوگوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور جہنم کو وہ ظلم کا بدلہ قرار دیتا ہے،  وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا۝۱۱۲    (سورۃ طٰہٰ: 112) ترجمہ: اور وہ نامراد ہوگا جس نے کوئی ظلم کا بوجھ اٹھایا ہوگا۔

گھریلو ہنسا میں آخری چیز میاں بیوی کا اختلاف ہے جو بڑھ کر اشتعال کا باعث بنتا ہے اور تشدد کو جنم دیتا ہے۔ تاہم جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے یہ بالکل فطری چیز ہے ہر انسان جو اس بندھن میں بندھا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اختلاف نہ ہو۔ تاہم اس کے ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شادی کا رشتہ اصل میں محبت کا رشتہ ہے۔ لیکن کبھی یہ اختلاف اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کوئی فریق پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایک فیصلہ دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسئلہ حل نہ ہو تو خواتین کو شوہر کی بات مان لینی چاہیے۔ اس طرح قرآن کریم نے اس تیسرے مسئلے کو حل کیا ہے جو گھریلو ہنسا کو جنم دیتا ہے۔ یعنی اختلاف ہو گیا ہے اور یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ کس کی بات مانی جائے، ایسے میں قرآن نے عورتوں کو کہہ دیا کہ آپ مرد کا فیصلہ قبول کرلو، جس کے بعد جھگڑا ختم ہو جائے گا اور مرد کے پاس کوئی وجہ نہیں رہے گی جو اسے اشتعال میں لائے اور تشدد پر ابھارے۔

خوش و خرم عائلی زندگی گزارنے کے لئے اللہ تعالی نے ہمیں ایسے راہنما اصول قرآن مجید کے مکمل ضابطہ حیات کی صورت میں دیے ہیں کہ جن پر عمل کرکے ایک انسان عائلی اور معاشرتی زندگی کو جنت نظیر بنا سکتا ہے۔ اور اس پر عملی نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک پاکیزہ حیات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کی مثالیں صحابہ کرام اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں۔ ان پر عمل کرکے یقینًا ہم گھریلو ہنسا جیسے گھناؤنے موذی مرض سے نجات پا سکتے ہیں۔

قارئین کرام! دنیا میں انسان مختلف رشتوں کے بندھن میں بندھا ہوا ہے، جو تمام خدا تعالیٰ کے قائم کردہ ہیں۔ صرف ایک رشتہ خدا تعالیٰ نے انسان کی اپنی، والدین یا عزیزواقارب کی پسند یا ناپسند پر چھوڑا ہے۔ اور وہ رشتہ ہے میاں بیوی کا۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں بار ہا اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ مثالی سلوک رکھنا چاہیے۔ چنانچہ فرمایا وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ  (النساء: 20) ترجمہ: اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔

اور یعنی ان (بیویوں) سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔

اسلام میں گھریلو طور پر تشدد کی انتہائی بیخ کنی کی گئی ہے۔ اور گھر میں امن و سکون کی زندگی کے لئے پیار اور محبت اور ہم آہنگی کو ایک انتہائی ضروری بات گردانہ گیا ہے۔

پھر ہمارے معاشرہ میں ایک غلط فہمی ہے کہ مرد کو قرآن مجید میں قوام قرار دیا گیا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ خاوند کا کام رعب ڈالنا ہے اور تشدد کرنا جائز ہے۔ جب کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، صحابہ کرام اور خلفاء احمدیت کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے کہ قوام کا مطلب کیا ہے؟ قرآن کریم نے حقوق کے حوالہ سے مرد اور عورت کو برابر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۠  (البقرۃ: 229) ترجمہ: اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے۔

ترجمہ: جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔

ہر انسان کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کے گھر کا ماحول ہر اعتبار سے بہت اچھا ہو۔ امن و سکون اور محبت کا گہوارہ ہو۔دنیا میں ہر چیز حاصل کرنے کے لئے کچھ قیمت ادا کی جاتی ہے اور وہ قیمت ہے جذبات کی قربانی، صبر و حوصلہ، حسن سلوک، ادائیگی حقوق اور فرائض کی بجا آوری۔ پس گھر میں جنت نظیر معاشرہ کے قیام کے لیے خاوند کی بحیثیت قوام ذمہ داری ٹھہرتی ہے اور اسے زیادہ قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ یہاں گھریلو ہنسا کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا بلکہ برابر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلق اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں قرآن شریف میں لکھا ہے وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ  مگر اب اس کے خلاف عمل ہورہا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 387)

آپؑ مزید فرماتے ہیں :’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورتوں سے جنگ کریں ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 307 )

پھر فرمایا:’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعًا نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰۠  (البقرۃ: 229) کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گا لیاں دیتے ہیں، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 300 تا 301)

آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:’’سب سے زیادہ بنی نوع انسان کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہوسکتا ہے جو پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے۔ مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز اردو 1902 صفحہ 179)

ہمارے پیارے آقا و مطاع حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ حیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے حسن معاشرت کرنے والے سب سے اعلی مقام پر فائز تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شہادت گھریلو زندگی کے بارہ میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے۔ اور سب سے زیادہ کریم عام آدمیوں کی طرح بلاتکلف گھر میں رہنے والے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرتؐ نے کبھی بھی اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا نہ کبھی کسی خادم کومارا۔

(شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’آج کل دیکھیں ذرا ذرا سی بات پر عورت پر ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے۔ حالانکہ جہاں عورت کو سزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں، اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے۔ چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے۔ اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس کی ضرورت پڑے۔ اس لیے بہانے تلاش کرنے کے بجائے مرد اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 448)

یہ اسلام کی وہ جامع اور ہمہ گیر راہنمائی ہے جو نہ صرف عورتوں بلکہ ہر طرح کے کمزوروں پر ظلم کا راستہ روکتی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی۔ قانون سازی کے ذریعہ بھی اور کردار سازی کے ذریعہ بھی۔

الغرض اسلام نے کسی جگہ بھی عورتوں سے تشدد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی بلکہ اسلام نے عورتوں کے کھوئے ہوئے حقوق کو واپس دلوایا ہے اور مردوں کو ہمیشہ ان سے حسن سلوک کی ہی تلقین کی ہے۔

Picture courtesy: Prevent domestic violence Pakistan during COVID-19 – GlobalGiving

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)