خلافت عافیت کا حصار

(کے طارق احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت)

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ  (البقرة 31)

ترجمہ:   اور (یاد رکھ) جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا تُو اُس میں وہ بنائے گا جو اُس میں فساد کرے اور خون بہائے جبکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اُس نے کہا یقیناً میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

صِدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حِصار

                        سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں:

                        ’’ اِس زمانہ کا حِصن حصین مَیں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتاہے وہ چوروں اور قَزاقو ں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اُس کو موت درپیش ہے اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘  (فتح اسلام صفحہ34)

            مذکورہ بالا آیات کریمہ میں حضرت آدم ؑکی خلافت کےآغاز میں خالق حقیقی اور ملائک کا یہ مکالمہ ایک امر کی خوب وضاحت کرتا ہے کہ خلیفہ کےامن بخش وجود کے ساتھ اِس قدر کُشت وخون اور فساد کے بادل گھرے نظر آتے ہیں کہ ملائک بھی اِس کی حقیقت کوسمجھنے سے قاصر ہیں کہ دراصل اِس طوفانِ بے تمیزی کا محرک کون ہے اور وہ کونسا حصارعافیت ہے جواِس جوروظلم سے دھرتی کو پاک کرے گا۔

                        تاریخ عالم شاہدِ ناطق ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے خلافت عافیت کاحصار کے مضمون کو اپنی غالب قدرت کے عجیب درعجیب ظہور سے اس قدر واضح اورروشن کردیا کہ پھر کیا جن وانس اور کیا ملائک سب کواپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے سربسجود ہونا پڑا۔

                        یہ مضمون ایسا نہیں کہ ایک قصۂ پارینہ ہوبلکہ ایسی جاری وساری رُود ِرواں ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں اورالحمدللہ ہم وہ خوش قسمت جماعت ہیں جو خلافت کے فیوض و برکات اور اس کے عافیت کا حصار ہونے کے ایمان افروز نظاروں کے عینی شاہد ہیں اورہرآن اس کے نشانات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اِحسان اس کے ہم پہ , ہیں بے حدوبیکراں

جوگن سکے  اُنہیں , نہیں ایسی کوئی  زباں

خلافت کا نظام ایک بہت ہی مبارک نظام ہے۔ جس کے ذریعہ آفتاب نُبوت کے ظاہری غروب کے بعد اللہ تعالی ماہتاب خلافت کے طلوع کا انتظام فرماتا ہے اور ایسی جماعت کو اُس دھکے کے اثرات سے بچا لیتا ہے جو نبی کی وفات کے بعد نو زائیدہ جماعت پر ایک بھاری مصیبت کے طور پر وارد ہوتی ہے۔

نظام خلافت امن و اماں کاضامن:

                        نظام خلافت وہ با برکت آسمانی نظام قیادت ہے جو اللہ تعالی جماعت مومنین کو ان کی روحانی بقاء اور ترقی کے لئے عطا فرماتا ہے۔ یہ ایک عظیم انعام ہے جو ایمان اور عمل صالح کی بنیادی شرائط سے مشروط ہے۔اس خدائی موہِبت کی حیثیت ایک حبل اللہ کی ہے۔اس خدائی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا جماعت مؤمنین کے لئے ان کے ایمان کی تصدیق بھی ہے اور امن وامان اور روحانی ترقیات کی ضمانت بھی۔

            آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا خطرات و مصائب سے گھری ہوئی ہے۔ دور حاضر کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نہایت واشگاف الفاظ میں اعلان فرماتےہیں کہ:

                        ’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوِشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘              (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۶۸،۲۶۹)    

      قارئین کرام !آج بنی نوع انسان کی حالت وکنتم على شفا حفرة من النار کی سی ہے کہ دنیااس وقت ایک بہت بڑی تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے۔آج دنیا میں ایک بے چینی اور خوف کی فِضا ہےاور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالمِ انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور خیر و عافیت کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید ہی اس سے قبل کبھی رہی ہوگی۔ تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اس کی بے لوث خدمت اور اس کی خیر و عافیت کے لئے دعائیں کرنےوالا ایک مقدس آسمانی نظام ،خلافتِ احمدیہ ہے۔ آج دنیا میں امنِ عامہ کی جس قدر کوششیں خلافتِ احمدیہ نے کی ہیں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی ہے جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خطرات سے مدت سے مسلسل خبردار کررہا ہے۔امن،صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی راہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہم اس کے ماننے والے ہیں۔ مگر وہ جو اُسے نہیں مانتے، وہ اُن کے لیے بھی ایسا ہی درد رکھتا اور دعائیں کرتا ہے اور اُن کے لئے بھی خیر چاہتا ہے۔کیونکہ ِاس زمانہ میں صرف اور صرف خلافت احمدیہ ہی ہے جو عافیت کا حصار ہے۔

            آج جب لادینیت عروج پر ہےاور لوگ اپنے خالق، اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی بدامنی اور بے سکونی کا شکار ہو رہے ہیں، ہمارے پیارے امام، دنیا کو حقیقی حصارِ عافیت یعنی خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی طرف متوجہ فرما رہے ہیں۔ حضورِ انور نے متعدد فورمز پر قرآنی اور تاریخی مثالیں دے کر ثابت فرمایا ہے کہ دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام خدا تعالیٰ کی ذات کو پہچاننے اور اُس کے حقوق ادا کرنے، حقوق العباد کی ادائیگی اور قیامِ انصاف سے مشروط ہے۔سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء کے موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ:

            ’’پس حقیقی امن دنیا میں لانے کے لیے یہی عقیدہ اور اس پر عمل کارگر ہو گا کہ دنیا کا ایک خدا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب لوگ امن میں رہیں۔حقیقی امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی کو تسلیم نہ کیا جائے، جب تک اس کی محبت دل میں پیدا نہ ہو۔ اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیش کیا ہے۔امن اس وقت تک قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مواخات پیدا نہ ہو اور حقیقی مواخات ایک خدا کو مانے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔‘‘

امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیام امن کے لئے زرّیں ہدایات :

            سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے با اثر سربراہان مملکت کو بھی قیام امن کی طرف اپنے خطوط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے۔:

                        ’’ حضور انور ایدہ اللہ نے امریکہ کے صدرکو مخاطب کرتے ہوئے تحریرفرمایا:

’’دنیا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ ضروری سمجھاکہ آپ کی طرف یہ خط روانہ کروں کیونکہ آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سُپر پاور ہے۔اسی بنا پر آپ کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار ہے جو نہ صرف آپ کی قوم کے مستقبل پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہوتےہیں…اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عدل و انصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطرناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار کھڑے ہیں…ایسی صورتحال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کریں۔بنی نوع انسان کو خدائے واحد کو پہنچاننے کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔جو سب کا خالق ہے جو انسانیت کی بقاء کی یہی ایک ضمانت ہے ورنہ دنیا تو رفتہ رفتہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہی۔…میری آپ سے بلکہ تمام عالمی لیڈروں سے یہ درخواست ہے کہ دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار اداکریں…اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے اور اس پر عمل کرنےکی توفیق بخشے۔‘‘

                        اسی طرح سیدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے کلیدی خطاب، بر موقع یارک یونیورسٹی، اونٹیریو، کینیڈا، میں فرمایا:’’اگر ہم حقیقی طور پر امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انصاف سے کام لینا ہوگا۔ہمیں عد ل اور مساوات کو اہمیت دینی ہوگی۔آنحضرت ﷺ نے کیا ہی خوبصور ت فرمایا ہےکہ دوسروں کے لئے وہی پسند کر وجو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ہمیں صرف اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے دنیا کے فائدے کے لئے کام کرنا ہوگا۔فی زمانہ حقیقی امن کے قیام کے یہی ذرائع ہیں۔‘‘( مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء  یارک یونیورسٹی، اونٹیریو، کینیڈا)

            نظام خلافت کی بنیادیں جہاں ایمان کی جڑوں میں پیوست ہیں تو دوسری طرف اس کی فصیلیں عرش الہٰی کو چھو رہی ہیں۔ جہاں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حفظ و امان کے جلوے ہر وقت جلوہ فگن ہوتے ہیں۔

بھری دنیا میں تنہا یہ ہمیں اعزاز حاصل ہے

ہدایت یافتہ رہبر، معیّن  اپنی  منزل  ہے

خدا کے فضل کا سایہ ہمیشہ ہی  رہے  قائم

دعا کرتا ہوں انوارِ خلافت ہم پہ ہوں دائم

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور آپ کے تسلی اور حوصلہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ سے افراد جماعت کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہےاور ان کو امن و امان کی ضمانت ملتی ہےاور آدم دوراں کے حضور افواجِ ملائک کے سربسجود ہونے کے نظارے عالم وجود میں جلوۂ افروز نظر آتےہیں۔مکرم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکریٹری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

            ’’4مئی 2006ء جمعرات کا دن تھا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے فارایسٹ ممالک کے دورےکےدوران ناندی فجی میں تھے۔ رات قریباً اڑھائی بجے کا وقت تھا کہ ربوہ ،لندن اور دنیا کے مختلف ممالک سے فون آنے شروع ہوگئے کہ اس وقت ٹی وی پر جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق ایک بہت بڑا سونامی طوفان فجی کے ساتھ والے جزائر TONGAمیں آیا ہے اور یہ طوفان طاقت کے لحاظ سے انڈونیشیا والے سونامی سے بڑاہے جس نے لاکھوںلوگوں کو غرق کردیا تھا۔ اور دنیا کے کئی ممالک میں تباہی مچائی تھی۔ جب TVآن کیا تو یہ خبریں آ رہی تھیں کہ یہ سونامی مسلسل اپنی شدت اور طاقت میں بڑھ رہاہے اور صبح کے وقت ناندی فجی کا سارا علاقہ غرق کردے گا۔ صبح ساڑھے چار بجے جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نماز فجر کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے تو حضورِ انور کی خدمت میں اس طوفان کے بارے میں رپورٹ پیش ہوئی اور جو پیغامات خیریت دریافت کرنے کے لیے فون پر موصول ہورہے تھے ان کے متعلق بتایا گیا ۔ حضورِ انور نے نماز فجر پڑھائی اور بڑے لمبے سجدے کیے۔ اور خدا کے حضور مناجات کیں۔ نماز سے فارغ ہوکر مسیح کے خلیفہ نے احباب جماعت کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے آئے۔ واپس آکر جب ہم نے TVآن کیا توTVپر یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اس سونامی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی شدت ختم ہورہی ہے۔ پھر قریباً دو اڑھائی گھنٹے کے بعد یہ خبریں آگئیں کہ اس طوفان کا وجود ہی مٹ گیا ہے۔پس اس دنیا نے عجیب نظارہ دیکھا کہ وہ سونامی جس نے اگلے چند گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں کو غرق کرتے ہوئے سارے علاقہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا تھا خلیفۂ وقت کی دعا سے چند گھنٹوں میں خود اس کا وجود مٹ گیا۔ اس روز فجی کے اخبارات نے یہ خبریں لگائیں کہ سونامی کا ٹل جانا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘‘

فضائے غم میں سکینت کے ابر لاتا ہے

دلوں کی کھیتیوں میں تمکنت اُگاتا ہے

وہ اپنے نُور سے اِک شکل سی بناتا ہے

دلوں پہ مہرِ اطاعت  وہی  لگاتا ہے

وہ اپنا فیصلہ  دنیا کو  پھر  سناتا  ہے

قسم خدا  کی  خلیفہ  خدا  بناتا  ہے

  آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کی جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے اس میں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ ان عظیم الشان نعمتوں کی برکت سے ایک تیسرا انعام اس جماعتِ مومنین کو یہ عطا ہوگا کہ جب بھی انہیں کسی وجہ سے حالتِ خوف سے گزرنا پڑے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو حالت ِامن میں بدل دےگا۔چنانچہ اس ضمن میں ہالینڈ کا ایک واقعہ ہے۔

            حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ 9؍دسمبر 2011ء میں فرماتے ہیں:’’گزشتہ دنوں جب میں یورپ کے دورے پر گیا تھا تو واپسی پر ایک جمعہ ہالینڈ میں بھی پڑھایا تھا اور وہاں میں نے وہاں کے ایک سیاستدان، ممبر آف پارلیمنٹ اور ایک پارٹی کے لیڈر جن کا نام Geertوِلڈر ہے، کو یہ پیغام خطبہ میں دیا تھا کہ تم لوگ اسلام کے خلاف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو دریدہ دہنی میں بڑھے ہوئے ہو، گھٹیا قسم کی باتیں کر رہے ہو، دشمنی میں انتہا کی ہوئی ہے۔ اس چیز سے باز آؤ، نہیں تو اُس خدا کی لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے جو اپنے وقت پر پھر تم جیسوں کو تباہ و برباد بھی کر دیا کرتی ہے۔ وہ خدا یہ طاقت رکھتا ہے کہ تم جیسوں کی پکڑ کرے۔ مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس طاقت تو کوئی نہیں، ہم دعاؤں سے تم جیسوں کا مقابلہ کریں گے۔ اس خطبہ کے خلاصے پر مشتمل پریس ریلیز جو ہمارا پریس سیکشن بھیجتا ہے، اُن کے انچارج جب یہ ریلیز بنا کر میرے پاس لائے تو باقی چیزیں تو انہوں نے لکھی ہوئی تھیں لیکن یہ فقرہ نہیں لکھا تھا۔ پھر اُن کو میں نے کہا کہ یہ فقرہ بھی ضرور لکھیں کہ ہمارے پاس کوئی دنیاوی ہتھیار نہیں ہے۔ یہی میں نے کہا تھا۔ لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ تم اور تم جیسے جتنے ہیں وہ فنا ہو جائیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا اپنے تمام مخالفین اور دشمنوں سے مقابلہ یا تو دلائل کے ساتھ ہے یا پھر سب سے بڑھ کر دعاؤں کے ساتھ۔ بہر حال یہ پریس ریلیز جو تھی، یہ Geert  ولڈر جو سیاستدان ہے اس نے بھی پڑھی اور انہوں نے اپنی حکومت کو خط لکھا اور حکومت سے، ہوم منسٹر سے چند سوال کئے۔ جب یہ وہاں پریس میں آئے تو وہاں کی جماعت نے مجھے لکھا کہ اس طرح اُس نے سوال کئے ہیں۔ لگتا تھا کہ جماعت والوں کو تھوڑی سی گھبراہٹ ہے۔ اُس پر مَیں نے اُنہیں کہا تھا کہ اگر ہوم آفس والے پوچھتے ہیں تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پریشان بھی ہونے کی ضرورت نہیں، کھل کر اپنا مؤقف بیان کریں۔ بنیاد تو اُس شخص نے خود قائم کی تھی جو غلط قسم کی حرکتیں کر رہا ہے۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط فلمیں بھی بنائی ہیں۔ انتہائی سخت زبان اُس نے استعمال کی تھی۔ اسلام کو بدنام کیا تھا۔ ہم نے تو اُس کا جواب دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے نبی کی غیرت رکھنے والا ہے اور وہ پکڑ سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔

                        بہر حال اُس نے یہ سوال جو اپنی حکومت کو بھیجے تھے، اُس کے سوالوں کا کچھ دنوں کے بعد حکومت نے جواب بھی دیا اور یہ وہاں اخبار میں بھی آ گیا۔

وِلڈر نے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ کیا یہ آرٹیکل کہ World Muslim leader sends warning to Dutch politician Geert Wilders۔ عالمی مسلمان رہنما کی ہالینڈ کے سیاستدان گیرت ولڈر کو تنبیہ آپ وزارتِ داخلہ ہالینڈ کے علم میں ہے؟ تو وزیرِ داخلہ نے اُس کو جواب دیا کہ ہاں مجھے علم ہے۔ یہ آرٹیکل مَیں نے پڑھا ہے۔

            پھر اگلا سوال اُس کا یہ تھا، (میرا نام لیا تھا) کہ مرزا مسرور احمدنے یہ کہا ہے کہ تم سُن لو کہ تمہاری پارٹی اور تمہارے جیسا ہر شخص بالآخر فنا ہو گا۔ یہ وِلڈر نے منسٹر کو لکھا۔ پھر آگے اس کی تشریح خود کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ اس مفسدانہ بیان پر وزارتِ داخلہ اسلامی تنظیم کے خلاف کیا قدم اُٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ڈچ وزیرِ داخلہ نے جواب دیا کہ پریس ریلیز کے مطابق مرزا مسرور احمدنے کہا ہے کہ ایسے افراد اور گروہ کسی فساد یا دیگر سیکولر حربوں سے نہیں بلکہ صرف دعا کے ذریعے ہلاک ہوں گے۔ اس بیان پر مَیں کوئی ایسی بات نہیں دیکھتا جو کہ فساد کو ہوا دیتی ہو یا باعثِ فساد ہو۔ اس لئے مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مَیں احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف کوئی قدم اُٹھاؤں۔ پھر تیسرا سوال اُس نے کیا تھا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی ہالینڈ کا عالمگیر جماعت احمدیہ مُسلمہ اور مسرور احمد سے کیا تعلق ہے؟ اس کا ڈچ وزیر نے جواب دیا کہ احمدیہ مسلم جماعت ہالینڈ عالمگیر جماعت احمدیہ مُسلمہ کا ہی ایک حصہ ہے۔‘‘

پس خلافت وہ قلعہ ہے جس کی فصیلیں خوف کی دسترس سے بلند تر ہیں۔ وہ خوف خواہ منافقت کا ہو یا عداوت کا ۔ جنگ کا ہو یا سیاست کا ۔ کسی گروہ کی طرف سے ہو یا بادشاہت کی طرف سے۔ ہر حال میں خلافت امن کے حصار کا نشان ہے۔ بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ جو حکومت بھی خلافت حقہ سے ٹکرائی، پاش پاش ہوگئی۔

            خلافت ایک ایسا شجر طیبہ ہے جو اس سے پیوند رکھتاہے خواہ وہ خطوط کے ذریعہ ہی ہو خواہ وہ حضور کے لیے دعائیں کر کے اپنے آپ کو حضور کی مجلس میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کوعافیت کے حصار میں رکھتا ہے اور اس کو دینی و دنیاوی حسنات سے نوازتا ہے۔

شجر سے جو رہے وابستہ وہ پھلدار ہو جائے

جو کٹ کر گر گیا بے دست و پا بیکار ہو جائے

خلافت سے عقیدت کی جو رسم و راہ رکھتا ہے

نہیں ممکن وہ خالی ہاتھ یا نادار  ہو  جائے

            حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حالیہ دورہ امریکہ کے موقعہ پر ایک نوجوان نے خلافت کے ساتھ وابستگی کے نتیجہ میں اس کو حاصل ہونے والی برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ:

            ’’میری عمر جب 20سال کے قریب تھی تو میں مذہب سے دور جانے لگا۔ جب میں طفل تھا تب بھی مجھے یاد ہے کہ میں مسجد میں کھیل اور Sportsکے لئے جاتا تھا لیکن جب نماز کا وقت آتا تھا تو میں غائب ہوجاتا تھا۔ لیکن اب میں 90منٹ کی مسافت اپنی گاڑی سے طے کر کے محض اس غرض سے مسجد آتا ہوں تاکہ میں عشاء کی نماز باجماعت ادا کرسکوں۔ جب میں اپنے اندر پیدا ہونے والی اس تبدیلی کا جائزہ لیتا ہوں تو خود ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہوں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا گذشتہ دورہ امریکہ 2018ء ہی میرے اندر اس تبدیلی کو جاگزین کرنے والا موقعہ تھا۔ اُس وقت اگرچہ مذہب کی طرف میری کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن میں Pizza Takeoutکی اپنی نوکری کو Skipکر کے مسجد میں حاضر ہوتا تھا تاکہ میں حضور کا استقبال کرسکوں اور حضور کے پیچھے نماز پڑھ سکوں۔ جیسے ہی میں مسجد میں داخل ہوتا تھا اور حضور کو دیکھتا تھا اور حضور کے پیچھے نماز ادا کرتا تھا تو میں اپنے اندر امن اور روحانیت محسوس کرتا تھا۔ چونکہ میں حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے جاتا تھا اور اپنی نوکری سے غیر حاضر رہتا تھا اس لئے مجھے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ لیکن،  اگرچہ میں اپنے اندر ضروری قابلیت نہیں رکھتا تھا پھر بھی مجھے اس سے بہتر نوکری بنک میں Cyber Securityکی مل گئی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ حضور کے قرب میں رہنے کی میری نیت تھی جس کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں ایسی برکات کا مشاہدہ کیا ہے۔

            اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ ہماری تمام تر ترقیات چاہے وہ روحانی ہوں یا دنیاوی محض اور محض خلافت کے ساتھ پنہاں رہنے کے نتیجہ میں ہمیں حاصل ہونے والی ہیں۔

            کینیڈا کی ایک جماعت سے ایک خاتون نے ایک مربی صاحب کو اپنا واقعہ سنایا۔ یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس میں وہ کہتی ہیں کہ چند سال پہلے ہماری عائلی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے اور آپس میں اس قدر شدید اختلافات پیدا ہو گئے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں نے اس بندے کے ساتھ نہیں رہنا اور میں نے اب علیحدہ ہونا ہے۔ اسی دوران حضور کا کینیڈا کا دورہ آ گیا۔ حضور تشریف لائے۔ میں نے بھی ملاقات کی درخواست کی اور ملاقات میں حاضر ہوئے تو میں نے یہ ساری صورتحال، کیفیت بیان کی اور بچوں کے لیے دعا کی درخواست کی اور حضور کی خدمت میں فیصلہ بھی سنا دیا کہ میں نے تو علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حضور نے فرمایا تمہارا خاوند کیا کہتا ہے؟ تو خاتون کہتی ہیں میں نے کہا وہ تو صلح کی طرف مائل ہے لیکن میں نے بس اب آخری فیصلہ کر لیا ہے، کوئی صلح نہیں، کوئی واپسی نہیں۔ حضور نے اس وقت فرمایا اگر وہ صلح کی طرف مائل ہے تو صلح کر لو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ کہتی ہیں کہ یہ عجیب ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، سب کچھ ختم ہو گیا ہے اورحضور فرما رہے ہیں کہ نہیں صلح کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔ تو کہتی ہیں اب میرے سامنے سوائے سرِ تسلیم خم کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے ملاقات سے نکل کر خود ہی خاوند کو فون کیا اور اس سے صلح کر لی۔اللہ تعالیٰ نے حضور کے ان الفاظ میں ایسی تسکین رکھی اور ان الفاظ کو ایسی برکت بخشی کہ اس صلح کے بعد ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے۔ اب ہمارے درمیان ایک ایسے پیار اور محبت اور مودت سے معمور تعلق کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ ایسے لگتا ہے جیسے ہر روز ہماری شادی ہو رہی ہے۔ کاش وہ لوگ جو خلافت کی اس نعمت سے محروم ہیں وہ یہ سمجھ سکیں کہ ایسے مواقع پر جب انہیں سمجھانے والا، ان کے لیے دعائیں کرنے والا اور ان کو تسکین کے کلمات عطا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو احمدیوں کے پاس ان کا خلیفہ ہوتا ہے جو ایک عظیم الشان نعمت کی طرح میسر ہے اور یہ خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کی نعمت ہے اور یہی نعمت وجہ تسکین جان ہے۔

حضور کے حالیہ دورہ امریکہ کے موقعہ پر Zionشہر کے ایک احمدی نوجوان کہتے ہیں کہ:

’’میری والدہ چند ماہ قبل اس دنیائے فانی سے رحلت کرگئیں۔ میری والدہ مجھ سے جدا ہونے کی وجہ سے میں بہت پریشان تھااور میں اپنے جذبات کو قابو میں نہیں کر پاتا تھا۔ اور یہ میری زندگی میں سب سے بڑی آزمائش تھی میرے لئے، گویا کہ کوئی پہاڑ مجھ پر ٹوٹ کے گر گیا ہو۔ لیکن حضور انور کی تشریف آوری کے ساتھ یک دم میری کیفیت میں تبدیلی واقع ہوئی۔ حضور انور کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے نتیجہ میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میری نمازیں روحانی اعتبار سے ترقی حاصل کر رہی ہیں۔ اور نماز میں میری ایک روحانی توجہ ہمیشہ قائم رہنے لگی۔ میری والدہ جب ہسپتال میں شدید علالت کے باعث داخل تھیں تب وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ حضور کا تازہ خطبہ جمعہ ٹی وی پر لگاؤ اور خلیفہ وقت کی اطاعت کی وہ ہمیشہ مجھے تلقین فرماتی تھیں۔ حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کا جو موقعہ ملا ہے وہ میری زندگی کے بہترین لمحات ہیں۔ کیونکہ وہ لمحے مجھے یاد دلاتے تھے کہ اگر چہ میری والدہ گذر گئی ہیں لیکن پھر بھی خلیفہ وقت میرا خیال رکھنے کے لئے ہمہ وقت موجود ہیں۔ میں سوچتا تھا کہ ماں کی محبت کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ لیکن خلیفہ وقت کے وجود میں وہ محبت مجھے نظر آئی ہے۔       خلافت سہارا ہے ہم غمزدوں کا                               اسے رکھ سلامت خدائے خلافت

خلیفہ وقت کی قیام امن کے لئے تڑپ اور بے قراری :

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پریس سیکریٹری عابد خان صاحب حضور انور سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور انور نے مجھے فرمایا:

            ’’کل شام تمہارے جانے کے بعد فیملی ملاقاتوں کے آغاز کے کچھ ہی دیر کے بعد میری طبیعت بگڑنی شروع ہوگئی۔ اور ملاقاتیں چلتی رہیں اور میری طبیعت آخر اس حد تک بگڑ گئی کہ مجھے ڈاکٹر شبیر صاحب کو بلانا پڑا۔‘‘

            عابد صاحب نے حضور کو عرض کیا کہ حضور! طبیعت بگڑنے پر ہی آپ نے ملاقاتیں ختم کیوں نہیں کروادیں۔ حضور انور نے کمال شفقت اور محبت سے فرمایا کہ:

            ’’احمدی احباب دور سے مجھ سے ملاقات کی غرض سے آتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ وہ مایوس ہوں۔ یا میرے لئے لمبے انتظار کریں کیونکہ انہوں نے واپس لمبی مسافت طے کر کے واپس اپنے گھروں میں جانا ہے۔ اس لئے اگر چہ میری طبیعت خراب تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے میں ان تمام فیملیوں سے ملاقات کرسکا۔‘‘

            اس روز کوئی فیملی ملاقات نہیں تھی جس کی وجہ سے عابد خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور اب تو آپ آرام کرسکتے ہیں۔ اس پر ہمارے محبوب امام نے فرمایا:

            ’’مجھے اجتماع خدام کے لئے اپنے نوٹس کو فائنل کرنا ہے، اور اس کے ایک یا دو دن کے بعد میں اجتماع لجنہ کے لئے اپنا نوٹس تیار کرنا شروع کروں گا۔ اس کے بعد امریکہ دورہ کے لئے میں نے تیاریاں شروع کرنی ہیں۔ لہذا اب آرام کے لئے کوئی وقت نہیں ہے۔‘‘

            پھر عابد صاحب نے کہا کہ الحمد للہ حضور اب بہتر نظر آرہے ہیں اور روٹین کے کام بھی حضور کے متاثر نہیں ہورہے ہیں۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جو کچھ فرمایااس نے میرے وجود پر لرزہ طاری کردیا اور ایک گہرے غم میں مبتلا کردیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ:

’’تم نہیں جانتے کہ میرے دل میں کیاتکلیف ہے۔ تم بس مجھے دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ سب ٹھیک ہے۔‘‘

            یہاں پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی جسمانی تکلیف کا اظہارنہیں فرمارہے ہیں بلکہ ہمارے دل و جان سے پیارے آقا جو بطور خلیفہ وقت دنیا کی موجودہ حالت سے آگاہ رہتے اور افراد جماعت کے مسائل سے باخبر رہتے ہیں اورپیارے آقا ان تکالیف کو اپنے سینہ و دل میں محسوس فرماتے ہوئے ہمہ وقت خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں اور اپنے وجود پر طاری لعلک باخع نفسک والی حالت کا اظہار دوسروں پر ہونے نہیں دیتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے روح پرور خطاب کے بارے میں غیر معمولی تاثر :

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بے شمار ملکوں کے ایوانوں میں خود جا کر اسلام کی پُر امن تعلیمات کے بارہ میں بہت پُر اثر خطابات فرمائے۔ ان کی وجہ سے آپ کو ’’امن کے سفیر‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ لا تعداد لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ حضور کی زبانِ مبارک سے اسلام کا تعارف سن کر آپ کی آواز ہمارے دل میں گھر کر گئی ہے اور ہمارے دل و دماغ اسلام کی تعلیم سے سرشار ہو گئے ہیں۔ صرف ایک اعتراف پیش کرتا ہوں:

            2012ء میں حضورِ انور نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوٹزرلینڈ) سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب میں شمولیت کے لئے آئے تھے،انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا:

            ’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کےحوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دنوں کے اندر برپا ہو سکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔‘‘ (احمدیہ گزٹ کینیڈا مئی 2018ء صفحہ20)

خاکسار اپنے مضمون کا اختتام حضورانور کا ارشاد فرمودہ جماعت احمدیہ کے نام ایک پُر معارف وجد آفرین پیغام پر کرتا ہے جو حضور انور نے صدسالہ جوبلی خلافتِ احمدیہ کے موقع پر عالم گیر جماعت احمدیہ سے فرمایا تھا ۔ حضور فرماتےہیں:

’’پس اے مسیح محمدی کے ماننے والو! اے وہ لوگوجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیار ے اور آپ کے درخت وجود کی سر سبز شاخیں ہو، اٹھواور خلافتِ احمدیہ کی مضبوطی کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہو،  تاکہ مسیح محمدی اپنے آقا و مطاع کے جس پیغام کو لے کر دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ، اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ تے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں پھیلادو ۔ دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچادو کہ تمہاری بقاخدائے واحدو یگانہ سے تعلق جوڑنے میں ہے ۔ دنیاکا امن اِس مہدی و مسیح کی جماعت سے منسلک ہونے سے وابستہ ہے کیونکہ امن و سلامتی کی حقیقی اسلامی تعلیم کایہی علمبردار ہے، جس کی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں پائی جاتی ۔آج اس مسیح محمدی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانےکا حل صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو مضبوطی ایمان کے ساتھ اس خوبصورت حقیقت کو دنیا کےہر فرد تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہماری  جاں خلافت پر فدا ہے                      یہ روحانی مریضوں کی دوا ہے

                               اندھیرا دل کا اس سے مٹ گیا ہے      یہی ظلمات میں شمعِ ھُدیٰ ہے

                               حصارِ  امن  و  ایمان و یقیں ہے  کنارِ عافیت حبلُ المتیں ہے

____________________________

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)