مرا مقصود و مطلوب و تمنّا خدمت خلق است

بلال احمد آہنگر استاد جامعہ احمدیہ قادیان

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران:111)       

تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم فارسی کلام میں فرماتے ہیں:۔

بدل دردے کہ دارم ازبرائے طالبانِ حق

نمے گردد بیان آں درد از تقریر کوتاہم

دل و جانم چناں مستغرق اندر فکر اوشان است

کہ نے ازدل خبر دارم نہ از جانِ خود آگاہم

بدیں شادم کہ غم از بہرِ مخلوق ِ خدا دارم

ازیں در لذّتم کز درد مے خیزد ز دل آہم

مرا مقصود و مطلوب و تمنّا خدمتِ خلق است

ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیںراہم

ترجمہ:۔    دردجو طالبانِ حق کے لئے دل میں رکھتا ہوںوہ درد میری مختصر تقریروں سے بیان نہیں ہو سکتا۔میرے دل و جان ان کی فکر میںاس قدر غرق ہیں کہ نہ اپنے دل کی خبر ہےنہ اپنی جان سے خبرداد ہوں۔خوش ہوں اس پر کہ مخلوقِ خدا کا غم خوار ہوں اس سے لذّت پاتا ہوںجب دل سے میری درد بھری آہ اُٹھتی ہے۔میرا مقصود، میرا شوق، میری آرزوخدمتِ خلق ہے۔یہی میرا کام، یہی میرا دین، یہی میرا حسنِ رفتاراور یہی میری راہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا ، ان کے آپس میں رشتے قائم کئے ،باہم ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں ،حقوق و فرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا۔دوسروں کو فائدہ پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضہ ہے ایک دوسرے کی مدد سے ہی کاروانِ انسانیت مصروف سفر رہتا اور زندگی کا قدم آگے بڑھتا ہے اگرانسان انسان کے کام نہ آتا تو دنیا کب کی ویرانہ بن چکی ہوتی ۔

 انسان اپنی فطری ، طبعی ، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے اسے اپنی پرورش ، نشوونما ،تعلیم و تربیت، خوراک و لباس اور دیگر معاشرتی و معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے انسانوں کا کسی نہ کسی لحاظ سے محتاج ہے۔

شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:       

بنی آدم اعضای یکدیگرند

کہ در آفرینش  ز یک گوہرند

چو عضوی بہ درد آورَد  روزگار

دگر عضوہا  را  نمانَد قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید کہ نامت نہند آدمی

ترجمہ:    اولادِ آدم سب ایک ہی بدن کے اعضاء ہیںپیدائش کے لحاظ سے سب انسان ایک ہی گوہر سے ہیں۔جب گردش زمانہ سے جسم کے کسی حصہ پر کوئی درد و غم آئے تو دوسرے اعضاء کو قرا ر نہیں آتا ہے۔ اے انسان ! اگر تمہیں دوسروں کے غم کا احساس نہیں ہے تو تجھے اپنے آپ کو ابن آدم کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

خدمت خلق وہ جذبہ ہے جسے ہر مذہب و ملت اور ضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں۔

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

خدمت خلق ایک جامع تصور ہے۔ یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔خلق کے اندر روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔

انسان انسان ہونے کی حیثیت سے ہمدردی کا مستحق ہے خواہ اس کا تعلق کسی قوم اورمذہب سے ہو۔ بلا شبہ انسانوں کے لئے انسانوں کا ایثار ہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے وہ لوگ واقعی بڑے باہمت ، قابل داد اور قابل ستائش ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں۔

شیخ سعدی شیرازی اپنی معروف کتاب ’’ بوستان سعدی‘‘  باب دوم در احسان میں فرماتے ہیں:۔    

شنیدم کہ پیری بہ راہ حجاز

بہ ہر خُطوہ کردی دو رکعت نماز

چنان گرم رو در طریق خدای

کہ خار مغیلان نکندی زپای

یکی ہاتف از غیبش آوازداد

کہ ای نیک بخت مبارک نہاد

بہ احسانی آسودہ کردن دلی

بِہ از الف رکعت بہ ہر منزلی

ترجمہ:     میں نے سنا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی حجاز کی مسافرت میں ہر قدم پر دو رکعت نماز پڑھتا تھا۔وہ طریق خُدا میں اس قدر مگن اور تیزرو تھاکہ بیابان کے کا نٹے بھی اپنے پیروں سے نہیں نکالتا تھا۔غیب کے ایک فرشتے نے آوازدی کہ اے نیک انسان ،اے پاک فطرت!یاد رکھ بطور احسان اور بخشش کسی کے دل کو خوش کرنا ہر قدم پر ہزاروں سجدوں سے بہتر ہے۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ؐ نے وحی سے قبل بھی ایک شاندار اور قابلِ تحسین زندگی گزاری ۔دوست دشمن سبھی اس بات کے معترف تھے کہ آپ ؐ خوش خلق اور مہمان نواز ہیں ، مظلوموں کے حامی اور مصیبت زدگان کے سرپرست آپ ؐنے انسانیت کی جھولی میں اخلاق عظیم کے جواہرات بھرے ،مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی ، جاہل کو علم سے آراستہ کیا۔

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا جو کوئی مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس کے لگائے ہوئے درخت یا کھیتی کی پیداوار انسان پرندے یا جانور کھائیں تو یہ اس درخت لگانے یا کھیتی کرنے والے شخص کی طرف سے صدقہ ہے۔

( ترمذی ابواب الاحکام باب فی فضل الغرس )

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا۔اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا ۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔

اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔

اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو‘ ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی

قرآن شریف کی تعلیم ہے۔‘‘(ملفوظات جلد4 صفحہ219)

حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنے منظوم فارسی کلام میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

مَرا مطلوب و مقصود و تمنّا خدمتِ خلق است

ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

 یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے۔ یہی میرا کام، یہی میری ذمہ داری، یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے۔

آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بنی نوع انسان سے بے حد ہمدردی تھی۔آپ ؑفرماتے ہیں:

احنّ الی من لا یحن محبّۃ

و ادعو لمن یدعو علیّ و یھذر

   ترجمہ:۔یعنی میں تو محبت کی وجہ سے اس کی طرف بھی مائل ہوتا ہوں جو میری طرف مائل نہیں ہوتا اور میں اس کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جو مجھ پر بددعا کرتا ہے اور بکواس کرتا ہے۔

( حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن ، جلد 7،صفحہ 362)

 حضور علیہ السلام نے شرائط بیعت میں بھی اس بات کو شامل کیا ہے۔

شرائط بیعت میں چوتھی شرط ہے۔ ’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے” اورنہم شرط ہے۔ “یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘

حضرت مفتی محمد صادق روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود اکثر فرمایا کرتے تھے ’’کہ ہمارے بڑے اصول دوہیں۔ اول خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا۔‘‘(ذکر حبیب صفحہ180)

سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’ آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گزارا اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کررکھا تھا۔ غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا۔ جب آپ فوت ہوگئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓ فوت ہوگیا۔ اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوا لے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہوا کہ فوت ہوگیا۔ یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کہ کسی حالت میں بھی حلوا نہ پہنچے۔ دیکھو کس قدر خدمت تھی۔ ایسا ہی سب کو چاہیے کہ خدمتِ خلق کرے۔‘‘(ملفوظات جلد 3صفحہ 369۔370)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں ۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔اپنے تو درکنار ، میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 82۔83)

بنی نوع انسان سے محبت کا جذبہ آپ ؑ کے دل میں ایسا موجزن تھا جس کوالفاظ میں ادا کرنا مشکل ہے۔آپؑ اپنے اس جذبہ محبت کویوں بیان فرماتے ہیں:

’’ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔میں صرف ان باطل عقائدکا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اورنا انصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول ہے‘‘۔

(اربعین،روحانی خزائن،جلد 17،صفحہ 344)

یہی وہ تعلیم تھی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ نے جذبہ ہمدردی سے سرشار ہو کر سب سے زیادہ توجہ خدمت خلق کی طرف دی۔مخلوق ِخدا سے ہمدردی اور ان کی مصیبتوں کو دور کرنا جماعت احمدیہ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔چنانچہ آپ علیہ السلام کی اس بے لوث خدمت و ایثار کا ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں۔

جن دنوں پنجاب میںطاعون کا دور دورہ تھا اور بے شمار لوگ اس موذی مرض سےمر رہے تھےآپ علیہ السلام کی جذبہ ہمدردی کی وجہ کیا سےکیا حالت تھی اس بارہ میںحضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںکہ انہوں نے آپ علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محو حیرت ہو گئے ۔آپ فرماتے ہیں:

’’اس دعا میں آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا۔اورآپ اس طرح آستانہ الٰہی پر گریہ و زاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرا ر ہو۔میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق خدا کے واسطے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا فرما رہے تھےکہ الٰہی ! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔‘‘(سیرت طیبہ ،صفحہ 54، بحوالہ سیرت مسیح موعود علیہ السلام شمائل و اخلاق ، حصہ سوم،صفحہ 395، مؤلفہ شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ)                    

چنانچہ خدمت خلق جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ خامسہ کے بابرکت دَور میں جماعتِ احمدیہ خیرِ اُمت بنتے ہوئے دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کی بھلائی کے لئے کام کررہی ہے۔ جماعت کی تنظیم ہیومینٹی فرسٹ دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق پارہی ہے ۔

انفرادی طور پر خدمتِ خلق کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں جب ہم دوسروں کی خدمت کرکے اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتے ہیں ۔ کسی بھی بات کو معمولی نہ سمجھیں ۔مسافر کی مدد کرنا ، غریب کو کھانا کھلانا ،غرباء کو کپڑے وغیرہ دینا،ایسے طالبعلم جو اپنی تعلیم کے اخراجات برداشت نہ کرسکتے ہوں ان کی مدد کرنا ،چرند پرند کے لئے خوراک کا انتظام کرنا ،غرض کہ ایسے بہت سے کام ہیں جن کو کرکے ہم خدمتِ خلق کرنے والوں میں شامل ہوسکتے ہیں

خدمت خلق کے لئے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس مال ہو کیونکہ صرف مالی مددکرنا ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی عیادت کرنا،کسی کی رہنمائی کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ،کوئی ہنر سکھانا ،بے روزگار کی کام تلاش کرنے میں مدد کرنا،اچھا اور مفید مشورہ دینا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا،نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا، کسی کے لئے دعا کرنا،یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔

خدمت خلق یہ بھی ہے کہ آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔نبی کریمؐ کا ارشاد ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

خدمت خلق انسان دوستی کا دوسرا نام ہے۔جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے والے انسانوں کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے ،دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیںاور ایساانسان مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے ۔خدا کی رحمت کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس کی مخلوق کے حق میں مہربان ہوتے ہیں۔ایسے محبوب اور پیارے لوگ ہی کسی معاشرے کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی عزت و احترام پاتا ہے۔

مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں:’’کہ خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ راستہ مخلوق سے محبت کو چُنا۔‘‘

دنیا میں ایسی انمول ہستیاں بھی ہیں جو کہ مخلوق کی بھلائی کے لئے ایسی ایسی بے مثال خدمات سر انجام دیتی ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام امرہوجاتا ہے اور خدمتِ انسانیت کے لئے کئے گئے ان کے کام صدقہ جاریہ کا روپ دھارلیتے ہیں۔

کاش ہم میں بھی ہو پیدا وہی انداز لگن

تاکہ دنیا بھی عقیدت سے ہمیں یاد کرے

ہمیں چاہئے کہ ہم سراپا خیر بن کر فلاح انسانیت کے لئے کام کریںتاکہ یہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

حضرت مصلح موعودؓ نے1938ء میں خدام الاحمدیہ کا اجراء فرمایا۔اس تنظیم میں متعدد شعبوں میںایک شعبہ خدمت خلق بھی ہے،جس کا مقصد خدام کو بلا امتیاز مذہب و ملت بنی نوع انسان کی بے لوث خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رکھنا ہے۔

خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے15اپریل1938 کو سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:۔

’’خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہو سکےوسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئےہر مصیبت زدہ کی مصیبت کودور کرنا چاہئے۔خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ۔ہمارا خدا ربّ العالمین ہےاور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہےاسی طرح اس نے ہندوؤں اور سکھوں اور عیسا ئیوں کو بھی پیدا کیا ہے۔پس اگر خدا ہمیں توفیق دےتو ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہئے۔‘‘( الفضل 22 اپریل 138)

جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اورخلفائے احمدیت کی ہدایات کے زیر سایہ خدمت انسانی کے اہم فریضہ کی بجا آوری کو اپنے لیے ایک فرض سمجھتی ہے اور اس شعبہ میں کار ہائے نمایاں سرانجام دینے کی سعی کرتی ہے ۔خدمتِ خلق کے کام کو ایک مربوط نظام کےتحت سرانجام دینے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے 1995 میں ہیومینٹی فرسٹ کا اجرا فرمایا ۔ اللہ کے فضل سےہیومینٹی فرسٹ کی شاخیں پچاس سے زائد ممالک میں قائم ہو چکی ہیں جہاں بلا تفریق رنگ و نسل ،مذہب و فرقہ ،علاقائی یا لسانی اختلاف کے رضاکارانہ طور پر دکھی ، نادار اور مستحق انسانیت کی خدمت کے متعدّد کام جاری ہیں۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ عالمگیرکو مختلف منصوبہ جات کے تحت خدمت خلق کی توفیق مل رہی ہے ۔احمدی بلا تمیز مذہب و ملت دنیا بھر میں طبی،تعلیمی،ملی اور دوسروی خدمات بجا لارہے ہیں  ۔جن میںطب کے میدان میں عالمی خدمات ،آئی بنک اور بلڈ بنک کا قیام ،عالمگیرتعلیمی خدمات ،کفایت یتامیٰ و بیوگان ،خدمت خلق کی عالمی تنظیم ہیومینٹی فرسٹ  اور متفرق خدمات خاص طور پرقابل ذکر ہے۔

جماعت احمدیہ کی خدمت انسانیت کے حوالے سےسابق وزیر پنجاب نتھاسنگھ جی دالم نے گجرات میںآئےزلزلہ کے لئے قادیان سے ریلیف کو روانہ کرتے ہوئے کہا کہ : ۔

’’مریضوں،ضرورتمندوں اور دُکھی انسانیت کی خدمت دنیا کی سب سے اعلیٰ خدمت ہے۔دُنیا کے سارے مذاہب انسان کی خدمت اور آپسی پیارکی تعلیم دیتے ہیں۔شری دالم نے احمدیہ جماعت کے ذریعہ سماج کی بھلائی کے لئےکئے جا رہے کاموں کی تعریف کرتےہوئے کہا کہ اس جماعت نے ملک میں صحت و تعلیم کے میدان میں خصوصی تعاون کے علاوہ جب بھی ملک میں کوئی قدرتی آفت آئی تو انہوں نے سب سے اوّل قطار میں کھڑے ہو کر دُکھی انسانیت کی خدمت کی ہے اور گجرات کے زلزلہ سے متاثرین کے لئے پینتیس لاکھ روپے کی راحت امداد بھیجی ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت نے مکھیہ منتری گجرات رلیف فنڈ میں بڑی رقم  دے کر اپنا تعاون دیا ہے۔ احمدیہ جماعت کی لنڈن اور دوسرے ممالک سے آئی ٹیموں نے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ بھُج میں جا کرخدمت کی ، جو قابل تعریف ہے۔‘‘(روزنامہ دینک جاگرن، جالندھر،23 مارچ 2001)

  آج کل کورونا وائرس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہےاور غذائی قلت ایک  بحران کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی لپیٹ میں ہیںلیکن غریب ممالک جہاں اس وائرس سے قبل بھی بھوک و افلاس سے لوگ پریشان تھے،وہاں اس وائرس سے پیدا شدہ حالات کےباعث لوگ مزید مشکل سے دوچار ہیں۔ان کٹھن حالات میں بھی جماعت احمدیہ کے افراد دنیا کے ہر کونے میںانسانی ہمدردی کے جذبہ کے تحت ہرممکن کوشش کر کے لوگوں کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک میں مجلس خدام الاحمدیہ نے  ہیو مینٹی فرسٹ کے تحت  رضاکارانہ طور پر گاؤں اور شہروں میں  ہزاروں افراد تک راشن ، پانی ، فیس ماسکس اور hand sanitizer  اوردیگر طبی خدمات  بجا لاتی رہی  اور مختلف ہسپتالوں کا وزٹ کر کے مریضوں کو بڑی تعداد میں فیس ماسکس مہیا کیے۔الغرض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ جو ایک عالمگیر مذہبی جماعت ہےجس کا شعار خدمت خلق اور ماٹو محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں ہے۔یہ بھی اپنے محدود وسائل کے باوجودپوری دنیا میں بلا تفریق مذہب و ملت و رنگ و نسل انسا نیت کی خدمت میں مصروف ہے۔

آصف محمود باسط صاحب کہتے ہیں کہ مورخہ 21 مارچ 2020خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضور انور نے کرونا وائرس کے حوالہ سے دنیا کی صورتحال، ماہرین کے تبصرے اور عوام الناس کے احساسات کے حوالہ سے نہایت بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:                1918ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوئنزا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلا دی جو میدان جنگ میں پھیلائی تھی۔ ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہوگیا۔ ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں۔ اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گاؤں بہ گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی۔اور عام رضا کاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غرباء کی امداد کےلئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خوردو نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا۔۔۔ان ایام میں احمدی والنٹیر (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے)صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہوگئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضا کار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضا کار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہوگئے۔انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا۔اور تقریروتحریر دونوں میں تسلیم  کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نےبڑی تندہی و جانفشانی سے کام کرکے بہت اچھا نمونہ قائم کردیا ہے۔(ازتاریخ احمدیت، جلد چہارم،صفحہ208-209)           

  جماعت احمدیہ دنیا بھر میںخلافت حقہ اسلامیہ کی زیر نگرانی خدمت خلق کی عظیم ذمہ داری کو محض للہ بجا لا رہی ہے۔اور جماعت احمدیہ ہمیشہ اس اصول پر خدمت خلق کی راہ پر گامزن ہے کہ  اِن اَجرِی الّا علیٰ ربّ العالمین ( الشعرا ء :165) یعنی میرا اجر ربّ العالمین کے ذمہ ہے۔  نیز ببانگ دہل یہ اعلان کرتی ہے لَا نُریدُ مِنکُم جَزَاءً وّ لا شُکوراً ( الدھر: 10) کہ ہم اس خدمت کے بدلہ میں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکریہ ادا کرو۔

اللہ تعالیٰ افراد جماعت کو اپنی تعلیمات کی روشنی میں بے لوث اور پُر خلوص خدمات کی توفیق عطا فرماتا  رہے۔آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)